گمشدہ افراد کا معاملہ صرف بیانات تک ہی محدود
4 ستمبر 2018ان کی اہلیہ معصومہ زہرا بتاتی ہیں کہ اس کال کے بعد ان سے مکمل طور سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ وہ شام ان کے اہلخانہ نے، جس انتظار میں گزاری، وہ انتظار اب بھی ختم نہیں ہوا۔
ممتاز حسین کی بیٹی ثمانہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد کی گمشدگی کے بعد ان کا خاندان نہ صرف شدید صدمے سے دوچار ہے بلکہ معاشی اعتبار سے بھی متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پانچ بچوں کے والد ممتاز اپنے گھر کے واحد کفیل ہونے کے علاوہ اپنی 80 سالہ والدہ کا بھی سہارا ہیں۔
پاکستان میں گمشدہ افراد کی بازیابی کا معاملہ گاہے بگاہے سامنےآتا رہتا ہے تاہم گزشتہ چند ماہ سے ان افراد کی بازیابی کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک ملک بھر سے کتنے لوگ جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں، اس کے بارے میں اعداد و شمار تو موجود نہیں تاہم اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ایسے حالات میں ایک خاندان کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے ثمانہ بتاتی ہیں کہ، ’’والد کی گمشدگی کا جب ادراک ہوا تو ہم نے اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ شہر کے تمام ہسپتال اور ایدھی سینٹرز پر بھی انہیں تلاش کیا لیکن ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ جب ہم نے پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد ہم نے ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔ کورٹ کے حکم پر بالاآخر پولیس نے دو ماہ بعد ایف آئی آر درج تو کر لی لیکن اس کے بعد سے ہم سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘‘
جبری کمشدگیوں کا سلسلہ روکا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
ممتاز حسین کے اہلخانہ کی انتھک کوششوں کے سبب ان کا کیس عدالت تک تو پہنچ گیا ہے اور زیر سماعت بھی ہے تاہم مختصر وقت کی سماعت کے بعد کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ ان کی اہلیہ معصومہ زہرہ کے مطابق عدالت کے حکم پر پولیس اور سکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جو اپنی رپورٹ عدالت کو مقررہ وقت پر دینے میں ناکام رہی۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ اب تک عدالت کی جانب سے سات مرتبہ مقدمے کی لاحاصل سنوائی ہو چکی ہے، ’’پہلی سماعت پر کیس کا تعارف پیش کیا گیا، دوسرے پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری ہوا، تیسری پر جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم جاری ہوا، چوتھی سنوائی پر جے آئی ٹی نے ہمیں بلایا اور عدالت سے رپورٹ پیش کرنے کے لیے اضافی وقت لیا، پانچویں پیشی پر جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرنا تھی جو کہ دینے میں وہ ناکام رہے۔ چھٹی بار سنوائی سے پہلے ہی عدالت کا وقت ختم ہو گیا لہذہ اس دن کچھ نہ ہو سکا جبکہ ساتویں پیشی پر ایک دوسری جے آئی ٹی تشکیل دی گئی کیونکہ پہلی والی کوئی بھی رپورٹ دینے میں کامیاب نہیں رہی۔‘‘
ممتاز حسین کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے، عدالت بھی گئے، احتجاجی مظاہرے، پریس کانفرنس بھی کی، چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی اپیل کی لیکن ان سب کے باوجود لاپتہ انجینئر ممتاز رضوی کی باحفاظت بازیابی تو کیا، ان کی کوئی خبر تک نہیں مل سکی ہے۔
پاکستان میں گمشدہ افرادکا مسئلہ تمام صوبوں تک پھیل گیا
پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل نے رواں برس مارچ میں جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کے گروپ برائے جبری گمشدگی کے پاس 700 کیس ہیں جبکہ ملک بھر سے سینکڑوں مزید جبری گمشدگیوں کی اطلاعات ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کے اس بیان کو لاپتہ افراد کے اہلخانہ خوش آئند قرار دے رہے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’جمہوری حکومت میں اب جبری گمشدگی‘ نہیں ہونے دی جائے گی، جبری گمشدگی کو قانونی جرم قرار دیا جائے گا اور اب تک لاپتہ ہونے والے افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھایا جائے گا۔ تاہم یہ باتیں اب تک صرف بیانات تک ہی محدود نظر آرہی ہیں۔