گوانتانامو سے الینوئے تک
18 دسمبر 2009واشنگٹن میں یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ گوانتاناموبے کے قیدیوں کو مستقبل میں کس جگہ رکھا جائے گا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی ریاست الینوئے میں ایک جیل خریدنے کے احکامات جاری کر دئے ہیں۔ اس جیل میں گونتاناموبے میں مقید قیدیوں کی ایک محدود تعداد کو رکھا جائے گا۔ یہاں لائے جانے والے قیدیوں کی تعداد کتنی ہوگی، اس بارے میں امریکی حکومت ابھی خاموش ہے۔ تاہم شکاگو کے ایک اخبار سن ٹائم کے مطابق غالباً گوانتاناموبے سے 90 کے قریب قیدیوں کو اس جیل میں منتقل کیا جائے گا۔ ریاست الینوئے کے سینیٹر رچرڈ ڈربن کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر اوباما کے احکامات کی تکمیل کی ہے۔
’’ہم اس طرح اپنے ملک کی مدد کر سکتے ہیں اور اس امر کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ گوانتاناموبے کی جیل ہر حال میں بند کر دی جائے گی تاکہ اس سے مزید خطرات پیدا نہ ہوں۔‘‘
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ ریاست الینوئے صدر اوباما کی آبائی ریاست ہے۔ اس ریاست میں بے روزگاری کی شرح 11 فیصد ہے، جو وفاقی سطح پر امریکہ میں پائی جانے والی بے روزگاری کی اوسط سطح سے اوپر ہے۔ تھومسن کی اس جیل میں گوانتاناموبے کے قیدیوں کے ساتھ ساتھ کئی دوسری امریکی جیلوں کے قیدیوں کو بھی لایا جائے گا۔ اور اس طرح ریاست الینوائے میں تین ہزار افراد کو روزگار میسر ہو سکے گا۔ سینیٹر ڈربن کا کہنا ہے۔
’’یہ ایک شاندار موقع ہے۔ اور لوگ اچھی نوکریوں کا بیتابی سے انتظار کرتے ہیں۔‘‘
لیکن سبھی لوگ یہ نہیں چاہتے کہ دور کیوبا میں قائم گوانتانامو اب امریکہ کے قلب میں قائم ہو جائے۔ کئی افراد کی نظر میں گوانتاناموبے سے قیدیوں کو امریکہ میں لانا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ری پبلکن جماعت سے وابستہ جان بوئنر اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
’’گوانتاناموبے کے قیدیوں کو الینوئے لایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ اس جیل کو بند کیا جائے گا۔ یہ ایک غلط منصوبہ ہے اور عوام اس کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘
امریکی صدرکیوبا کی متنازعہ گوانتانامو بے جیل بند کرنے کے اپنے ارادے پر ڈٹے ہوئے ہیں تاہم امریکی حکومت اس سلسلے میں دوبارہ اپنی کوششیں تیز تر کر رہی ہےکہ یورپی ممالک گوانتانامو جیل کے بے گناہ قیدیوں کو اپنے ہاں بلانے پر رضا مند ہو جائیں۔ گوانتاناموبے جیل حقیقت میں کب بند کی جائے گی، اس بارے میں وائٹ ہاوس کی طرف سے کوئی ٹھوس اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
رپورٹ : نیکول مارک والڈ/ امتیاز احمد
ادارت : کشورمصطفیٰ