گوناگوں مسائل سے دوچار پاکستانی بچے
28 جون 2013پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن (سپارک) نے پاکستان میں بچوں کی صورتحال کے حوالے سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکومت بچوں کے حوالے سے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے نام پرعالمی برادری کے ساتھ کیے گئے اپنے ترقیاتی وعدے پورے کرنے میں بھی ناکام ہو گئی ہے۔
پاکستان میں بچوں کی صورت حال کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر واحد معتبر دستاویز کی حیثیت رکھنے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، یہاں پانچ سے نو سال کی عمر کے انیس اعشاریہ پچھتر ملین بچوں کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ اسکول نہیں جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام عمروں کے بچوں کو اگر دیکھا جائے تو تقریبا پچیس ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پنجاب میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد اکسٹھ فیصد، سندھ میں 53 فیصد، کے پی کے میں اکاون فیصد اور بلوچستان میں سینتالیس فیصد ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پندرہ سے چوبیس سال کی عمروں والے نوجوانوں میں بھی خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ ناخواندگی کی زیادہ شرح دیہات میں ہے اور اس میں بھی زیادہ تر لڑکیاں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ابتدائی تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی حکومتی رقوم میں بھی کمی نوٹ کی گئی ہے۔
صحت کے حوالے سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے تینتالیس فیصد بچے غذا کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ ان میں سے اکیس فیصد بچے غذا کی شدید کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی نشوونما بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چار لاکھ 23 ہزار بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں میں موت کی شرح اس وقت ایک ہزار بچوں میں سے بہتر بچوں کی ہے لیکن میلینیم گولز کے مطابق اس شرح کو باون تک لایا جانا چاہیے تھا۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں اب تک منظرعام پر آنے والے پولیو کے تمام کیسز کے تیس فیصد بچے پاکستان میں ہیں۔ اسی طرح یہاں بچوں میں نمونیہ، ٹی بی، خسرے اور ملیریا کی بیماریوں کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار بارہ میں پاکستانی بچوں کے خلاف تشدد، جنسی زیادتی، قتل، اور کاروکاری سمیت پانچ ہزار چھ سو انسٹھ کیسز سامنے آئے جب کہ سن دو ہزار چار سے اب تک ایک سو ستانوے بچے ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق دس سال کی عمر تک مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد نو ملین سے زیادہ ہے جب کہ سال دو ہزار بارہ میں ایک ہزار تین سو اٹھانوے بچے جیلوں میں تھے۔ ان میں ایک ہزار دو سو انیس بچے معمولی جرائم میں زیر سماعت مقدمات کی وجہ سے تھے، جن کو ضمانت پر رہا کروایا جا سکتا تھا۔ اس وقت جیلوں میں موجود ایک سو اناسی بچے مختلف جرائم میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اس ضمن میں یا تو ملکی قوانین ناکافی ہیں یا ان پر درست طریقے سے عمل نہیں ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سپارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زرینہ جیلانی نے بتایا کہ جیلوں میں زیادہ تر غریبوں کے بچے ہوتے ہیں اور جیل کا ماحول انہیں جرائم کی طرف لے جا رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے بعض علاقوں میں بچوں کو افریقہ کے پسماندہ علاقوں کے بچوں جیسی غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق ایک حالیہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کے اسکول سے بھاگنے میں اساتذہ کی مار پیٹ کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے لیکن ایک اور اسٹڈی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اساتذہ کی طرف سے بچوں کی مار پیٹ کو والدین کی بڑی تعداد کی حمایت بھی حاصل ہے، جو کہ تشویش ناک بات ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک اور تنظیم چائلڈ رائٹس موومنٹ کے ترجمان افتخار مبارک کہتے ہیں کہ پاکستانی بچے پاکستانی حکومتوں کی ترجیح نہیں ہیں۔ ان کے لیے زیادہ وسائل بھی مختص نہیں کیے جاتے۔ ان کے بقول شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے پاس سیاست دانوں کو دینے کے لیے ووٹ کا حق نہیں ہوتا۔ افتخار مبارک نے مزید کہا کہ پاکستان میں بچوں کی حفاظت کے لیے سرکاری سطح پر کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ان کےمطابق بچوں کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر چائلڈ رائٹس کمیشن بنائے جانے چاہییں۔
یاد رہے پاکستان میں سرکاری طور پر بچوں کے بارے میں سروے نہ کیے جانے کی وجہ سے یقینی اعدادوشمار میسر نہیں ہوتے۔ سال دو ہزار بارہ کی صورتحال پر مبنی اس رپورٹ میں بچوں کے لیے کام کرنے والے مختلف غیر سرکاری اداروں کے اعدادوشمار اور جائزوں سے مدد لی گئی ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت:عاطف بلوچ