گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے 13 سال
12 ستمبر 2014امریکا میں نائن الیون کے تیرہ برس مکمل ہونے پر نیشنل ستمبر الیون میوزیم کا افتتاح کیا گیا۔ اس عجائب گھر میں ان حملوں کے دوران اتاری گئی اور بنائی گئی مختلف تصاویر کو رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں زمین بوس ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کے مقام پر ہزاروں افراد جمع ہوئے اور مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے سےکچھ قبل تقریب کا آغاز ہوا۔ اس دوران اس دہشت گرادنہ کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کے نام دہرائے گئے اور ان افراد کو یاد کرنے اور دعا کرنے کے لیے خاموشی اختیار کی گئی۔ اس موقع پر انتہائی رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔
نیویارک میں2001ء میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد شہر میں بہت سے تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ بل دی بلاسیو شہر کے نئے میئر بن چکے ہیں اور تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کی جگہ ایک نئی عمارت کھڑی ہو چکی ہے۔ ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر نامی یہ عمارت 541 میٹر بلند ہے اور اگلے برس اس کا افتتاح کر دیا جائے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس افتتاح کے ساتھ ہی شہر کے پہچان تبدیل ہو جائے گی اور ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔
سوگوار تقریب میں ہلاک ہونے والوں کے نام پڑھنے کے دوران چار وقفے کیے جاتے ہیں۔ پہلا وقفہ اس وقت کیا جاتا ہے، جب پہلا جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا تھا۔ دوسرا وقفہ دوسرے جہاز کے ٹکرانے کے وقت جبکہ اسی طرح پہلا ٹاور گرنے اور دوسرے ٹاور کے زمین بوس ہونے کے مواقع پر بھی دو مختلف وقفے کیے جاتے ہیں۔
گراؤنڈ زیرو پر موجود یادگاری پلازہ گیارہ ستمبر کے دن عام شہریوں کے لیے تقریباً بند ہوتا ہے جبکہ حملے میں ہلاک ہونے کے لواحقین کے لیے اس حوالے سےکوئی پابندی نہیں ہوتی۔
یادگاری پلازہ پر موجود چند لواحقین کو کچھ افراد کے رویے پر شدید اعتراض بھی تھا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے ایک فائر فائٹر کی بہن نینسی نی نے کہا کہ یہاں خاموشی ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس یہاں بچے کھیل کود رہے ہیں۔ ’’ کچھ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ جگہ مرنے والوں کی یاد دلاتی ہے اور یہ انہی کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔ میں کبھی بھی ہولوکاسٹ میوزیم میں جا کر اپنی تصاویر نہیں بنا سکتی۔‘‘
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اس تبدیلی کو ضروری سمجتھے ہیں۔ ان کے خیال میں اس غم کو بھلانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ وہاں پر موجود ایک خاتون نے کہا کہ جیسے ہی میں نے ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کو دیکھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا تھا۔ ’’ میں نے سوچا کہ اب ہم آگے بڑھ گئے ہیں‘‘۔