گیس پائپ لائن کا معاہدہ منسوخ کرنا چاہتے ہیں، ایران
31 اکتوبر 2013ایران کی نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے ایرانی وزیر برائے تیل بائیجان نام دار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو قدرتی گیس کی فراہمی کے معاہدے کی منسوخی کا امکان ہے۔ تاہم ایرانی وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ایران یہ معاہدہ کیوں منسوخ کرنا چاہتا ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستان 750 ملین مکعب کیوبک فٹ یومیہ گیس ایران سے برآمد کرے گا۔ 1931 کلو میٹر طویل اس گیس پائپ لائن کی تکمیل پر 1.5 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور اس کے ذریعے 31 دسمبر 2014ء سے گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ اس گیس پائپ لائن کا 1150ء کلو میٹر حصہ ایران میں بچھایا جائے گا جس میں سے تقریباً 900 کلو میٹر لائن بچھائی جا چکی ہے جب کہ پاکستان میں اس 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائے جانے کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ٹیکنالوجی اور شدید مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے، ’’میرے نزدیک یہ پائپ لائن کی سیاست ہے۔ یہ پائپ لائن بن نہیں پائے گی۔ ہم اس پائپ کو بین الاقوامی سیاست میں استعمال کریں گے۔ ہم چاہ یہ رہے ہیں کہ امریکا نے جس طرح کا معاہدہ انڈیا سے کیا ہے ہم سے بھی کرے۔ درحقیقت اس پائپ لائن کو ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کے بغیر بنانا ناممکن نہیں ہے۔‘‘
سابقہ حکومت کے دور میں ایران کے ساتھ اس پائپ لائن پر بہت پیش رفت ہوئی تھی۔ سابق صدر آصف علی زرداری اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی مخالفت کے باوجود یہ پائپ لائن ضرور بنے گی۔ زرداری کے مخالفین کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پائپ لائن کو محض سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ نئی حکومت اس پراجیکٹ سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ حکومتی وزراء اس پائپ لائن کے مہنگے ہونے اور ملکی معیشت کے لیے فائدہ مند نہ ہونے کی باتیں کر چکے ہیں۔
دوسری جانب امریکا اور ایران کے تعلقات بھی نسبتاً بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اس کے باوجود امریکا اور یورپی یونین نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں برقرار رکھی ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ ان پابندیوں کے ہوتے ایران کے ساتھ پائپ لائن کا منصوبہ کہیں اس کے لیے بھی نقصان دہ نہ بن جائے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے منسلک نجم رفیق کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امریکی انتباہ کے باوجود اس منصوبے کو نافذالعمل کرنے سے پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پابندیوں کے حوالے سے جو بھی ممالک ایران کے ساتھ جس قسم کے بھی معاہدے یا لین دین کریں گے وہ ان پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ لہٰذا اس کے اثرات پاکستان کے لیے بہت مضرہو سکتے ہیں۔ اس کی امداد بند ہو سکتی ہے اور ہمارا امریکا کے ساتھ جو اسٹریٹجک ڈائیلاگ ہے اس میں تعطل آ سکتا ہے۔‘‘