ہانگ کانگ، چین سپردگی کے پچیس سال مکمل
1 جولائی 2022سابق برطانوی نو آبادی ہانگ کانگ کو بیجنگ کے حوالے کرنے کے پچیس برس مکمل ہونے پر منعقد کی گئی خصوصی تقریب کی صدارت چینی صدر شی جن پنگ نے کی۔ اس موقع پر جمہوریت نواز مظاہرین کے ممکنہ احتجاج کے تناظر میں سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی۔
ہانگ کانگ کے چین میں دوبارہ اتحاد کے پچیس برس مکمل ہونے پر جمعے کے دن ایک سرکاری تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اگرچہ اس تقریب میں چینی صدر شریک نہ ہوئے تاہم انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہانگ کانگ ہمیشہ ہی چین کا حصہ تھا اور بیرونی طاقتوں نے صرف وقتی طور پر ہی اس پر قبضہ کیا تھا۔
اس تقریب کا آغاز پرچم کشائی کے ساتھ ہوا، ہانگ کانگ کی وکٹوریہ بندرگاہ پر چین اور ہانگ کانگ کے پرچم لہرائے گئے۔ اس موقع پر ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو جان لی نے اس تقریب میں شامل لوگوں کی تالیوں کے جواب میں ہاتھ اٹھا کر انہیں اپنی یک جہتی کا یقین دلایا۔
بعد ازاں شی جن پنگ ہانگ کانگ پہنچے، جہاں انہوں نے لی کی نئی حکومت کی ستائش بھی کی۔ چینی صدر نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیے جانے کے دن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''اپنی دھرتی ماں کے ساتھ اتحاد کے ساتھ ہی ہانگ کانگ کے لوگ اپنے شہر کے مالک خود بن گئے تھے۔‘‘
صدر شی نے مزید کہا کہ ہانگ کانگ کی حقیقی جمہوریت کا آغاز پچیس برس قبل اسی دن سے ہوا تھا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طوفان کے بعد ہانگ کانگ کا ایک نیا جنم ہوا، جو ایک نئی توانائی کا حامل ہے۔
کووڈ کی عالمی وبا کے شروع ہونے بعد صدر شی نے پہلی مرتبہ ہانگ کانگ کا دورہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ سن دو ہزار سترہ میں یکم جولائی کی تقریبات میں شرکت کی خاطر ہی ہانگ کانگ گئے تھے۔
سخت سکیورٹی اور مظاہرین پابند
برطانیہ نے یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو ہانگ کانگ کا انتظام چین کے حوالے کیا تھا۔ کئی برسوں تک اس دن کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی سالانہ تقریبات کے دوران ہزاروں جمہوریت نواز مظاہرین پر امن احتجاج کرتے رہے ہیں۔
تاہم اس سال ہانگ کانگ کی بیجنگ نواز حکومت نے ممکنہ مظاہروں پر قابو پانے کی خاطر خصوصی انتظامات کیے اور سکیورٹی کی بھاری نفری بھی تعینات کی۔
یکم جولائی کو منعقد ہوئی اس تقریب میں ہانگ کانگ کے نئے چیف ایگزیکٹو نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھایا۔ انہوں نے کیری لام کی جگہ یہ منصب سنبھالا ہے۔
جان لی نے حلف اٹھانے کے بعد کہا کہ اس اقتصادی مرکز کی ترقی کا راز دراصل قانون کی حکمرانی میں ہی پنہاں ہے۔ انہوں نے اُس متنازعہ قانون کا دفاع بھی کیا، جو چین نے اس علاقے میں اپنی طاقت بڑھانے کی خاطر متعارف کرایا ہے۔ لی کے بقول یہ متنازعہ قانون ہانگ کانگ کے استحکام کا باعث ہے۔
یاد رہے کہ چین نواز لی ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ سن 2020 میں جب وہ ہانگ کانگ کے سکیورٹی چیف تھے تو انہوں نے اس متنازعہ قانون کے عمل درآمد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، جس پر امریکا نے ان پر پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔
بین الاقوامی سطح پر شکوک و شبہات
چینی حکومت نے ہانگ کانگ میں ‘حقیقی جمہوریت‘ کا نعرہ بلند کیا ہے تاہم بین الاقوامی کمیونٹی بیجنگ حکومت کے اس عمل پر شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
چین کی طرف سے متعارف کردہ 'ایک ملک، دو نظام‘ کے تحت اگرچہ ہانگ کانگ کو وسیع تر خودمختاری اور آئینی آزادی حاصل ہو گی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نئے نظام میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے بالخصوص ہانگ کانگ میں انسانی آزادیوں پر قدغنیں لگیں گی۔ چینی صدر کے بقول یہ طریقہ کار آزمایا ہوا ہے اور یہ کامیاب ثابت ہو گا۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک دن قبل ہی کہا کہ لندن حکومت ہانگ کانگ کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ انہوں نے بیجنگ حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ جانسن کے مطابق موجودہ صورتحال میں ہانگ کانگ کے باسیوں کے حقوق اور آزادی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی ہانگ کانگ کے شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی طاقت کے سامنے ہانگ کانگ کی اپنی خودمختاری ختم ہوتی جا رہی ہے۔
اسی طرح متعدد مغربی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا نے بھی ہانگ کانگ کی موجودہ صورتحال کو تشویش کا باعث قرار دے دیا ہے۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی پونگ نے کہا کہ ہانگ کانگ میں دو سال قبل منظور کیے جانے والے ‘نیشنل سکیورٹی لاء‘ کے مضمرات سامنے آنے لگے ہیں۔ تاہم بیجنگ حکومت ان تمام تر الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کرتی ہے۔
ع ب ⁄ ش ر (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)