''لڑکیوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، گھر بسانے کے لیے آخر عورت کو ہی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، زیادہ پڑھنے سے لڑکیوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے، خود پیسہ کمانے والی خواتین سسرال کی عزت نہیں کرتیں''۔ یہ، اور ایسے کئی جملے ہیں، جو میری طرح بہت سی خواتین اپنے بچپن سے سنتی آئی ہیں۔ ہماری والدہ، نانی اور دادی کی نسل نے تو اس سے بھی کہیں زیادہ سخت الفاظ سن رکھے ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات بھی ایسے جملے کسی اور روپ میں سنتے آئے ہیں۔ جیسے''مرد سب سہہ سکتا ہے، مرد کو تو کمانا ہوتا ہی ہے چاہے جو بھی حالات ہوں، وہ مردہی کیا جو گھبرا جائے، جو حوصلہ ہار دے، جو رو پڑے''۔
عمر کے ساتھ جیسے جیسے تعلیم، تجربه اور ایکسپوژر بڑھا تو سمجھ آیا کہ تعلیم کی وجہ سے دماغ خراب ہونے سے مراد شاید حقوق سے آگاہی ہے۔ وہ حقوق جو معاشرہ انسانوں کو دینے سے کتراتا ہے۔ وہ حق تلفی جس پر آواز اٹھانے کو 'دماغ کا خراب ہونا' گردانا جاتا ہے، تو شاید اتنا دماغ تو ہر کسی کو خراب کر ہی لینا چاہیے۔
عزت، حفاظت، تعلیم، حقِ رائے دہی اور مذہبی آزادی وغیرہ وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں، جو بلا تفریق ہرانسان کا حق ہیں۔ لچک پیدا کرنا اور آپس میں سمجھوتہ کرنا کامیاب زندگی کے لیے بہت ضروری ہیں مگر اس سمجھوتے کے معیار کو جانچنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
آنے والی نسل کو کسی ایسے مفروضے کی بنیاد پر تعلیم پر سمجھوتہ کرنا سکھانا آج کے دور میں یقینا بے وقوفی ہے۔ مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں ایسے معاملات پر ایک مثبت تبدیلی رونما ہوتی نظر آ رہی ہے، جو بلا شبہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔ بڑی بڑی یونیورسٹی اور اداروں میں کافی حد تک صنفی توازن دیکھنے کو مل رہا ہے، مگر 2024ء میں بھی ہمیں اگر اس پر بحث کرنے، کالم لکھنے اور ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے تو یہ ایک قابل فکر بات ہے۔ کیونکہ سوچ میں تبدیلی کے لیے اب بھی مزید کوشش درکار ہے۔ لڑکی کی زندگی کا واحد مقصد جب تک صرف شادی سمجھا جائے گا، والدین، خاندان، میڈیا جب تک شادی کو زندگی کا ایک ضروری جزو نہیں بلکہ مقصدِ حیات ثابت کرنے پر تلے رہیں گے تو تعلیم پر سمجھوتہ جائز لگے گا۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی معاشرے کا ہر کردار بہتر نبھا سکتی ہے، چاہے وہ کردار بیوی کا ہو یا ماں کا۔ کردار کی بحث میں پڑنے سے پہلے اس کا ذاتی انسانی حق یہ ہے کہ وہ باشعور شہری کے طور پر زندگی گزار سکے۔
کچھ ایسے جملے مزید تکلیف دہ ہوتے ہیں، جو جاب کرنے والی خواتین سے متعلق عام استعمال ہوتے ہیں اور جن کو سن کر لگتا ہے کہ شاید وہ شوہر يا سسرال کی عزت نہیں کرتیں۔ گو ہر معاشرے میں ایسے افراد ضرور پائے جاتے ہیں، جن میں اخلاق کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اور وہ کسی کی بھی ٹھیک سے عزت کرنا نہیں جانتے۔ اس رویے کا تعلق تربیت اور ماحول سے تو ضرور ہو سکتا ہے مگر صنف سے نہیں۔ دیکھا جائے تو غرور و تکبر کا دولت اور پیسے سے گہرا رشتہ رہا ہے اور یہ بھی صنف کا محتاج نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کچھ معاشرتی منفی رویوں کو عورت کا ملازمت کے حق سے دستبردار ہونے کے لیے ٹھوس دلیل سمجھنا ٹھیک ہے؟ انسان کے اپنے خواب اور ترججیات کو کچھ سٹیریو ٹائپس کی نظر کر کے اگلی نسل کو سونپنا عقلمندی تو نہیں ہو سکتی۔ بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ہمیں ایسا سوچنے پر قائل کر لیتا ہے کہ ایسے حقوق سے دستبردار ہونا بہت نیک کام ہے اور اسے کسی تمغے کی طرح پہننا چاہیے۔
آج بھی 90 فیصد فلموں اور ڈراموں میں سیدھی سادی گھریلو عورت کا کردار مثبت دکھایا جاتا ہے اور مغرور، بد کردار، شاطر اور دھوکہ باز عورت کوئی ماڈرن لباس پہننے والی،کام کرنے والی عورت ہوتی ہے۔ نفسیات کی زبان میں اسے کنڈیشننگ کہتے ہیں جہاں ہم انسان سے آزادانہ سوچ اور رائے رکھنے کا حق چھین لیتے ہیں اور ان کا ذہن اسی معیار کوصحیح اور غلط سمجھتا ہے، جو ان کو دکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔
اسی معاشرتی معیار کے مطابق اپنی مرضی سے شادی بغاوت ہے، چاہے اس کا حق مذہب نے بھی دیا ہو۔ یہی وہ معیار ہے جس کے مطابق گھر بسانے کے لیے عورت ہی کو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، چاہے اس سمجھوتے کا مطلب اپنی جان پر سمجھوتہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاشرے کے معیار، تہذیب یا روایات میں کوئی برائی نہیں ہے مگر برائی سوچ میں ضرور ہو سکتی ہے۔ اپنی سوچ کو وقت کے ساتھ تبدیل کرنا بہت اہم ہے۔ زندگی میں سمجھوتہ کرنا بھی ضروری ہے جو بہت سے معاملات میں آسانی پیدا کرتا ہے مگر اس سمجھوتے کے معیار کو پرکھنے کی بہت ضرورت ہے۔
صوفے کے رنگ پر تو سمجھوتہ ہو سکتا ہے، جسمانی تشدد پر نہیں۔ لڑکی جہیز لائے یا لڑکا بڑا گھر بڑی گاڑی فراہم کرے، آمدنی سے بڑھ کر شاپنگ کروائے یا تفریح پر لے جائے، یہ سب ناجائز مطالبات ہیں اور جن کے بارے میں گفتگو کرنا اور وسائل کو دیکھتے ہوئے پاؤں بھیلانا ا تربیت کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ اسی تربیت میں حق تلفی پر آواز اٹھانے کی ہمت دینا بھی شامل ہے۔
عزت پر سمجھوتہ، تشدد پر سمجھوتہ، حق تلفی پر سمجھوتہ کرنے کو قطعا جائز نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسی لیے جب جاب کرنے والی کسی خاتون کو برا کہنے کی کوشش کی جاتی ہے تو شاید یہ اسی 'پیاز کی ایک تہہ' ہے، جو اسے مجبور کرنا چاہتی ہےکہ جو کھلاتا ہے اور سر پر چھت دیتا ہے اس کی مار بھی برداشت کر لو کیونکہ جو عورت معاشی طور پر مضبوط اور محفوظ ہو وہ یہ سمجھوتہ کبھی نہیں کرتی۔ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے صنف کی تفریق کے بغیر سمجھوتے کرنا بہت ضروری ہیں مثلا کچھ عادات کچھ مزاج کچھ ترجیحات پر سمجھوتے کرنا وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ہی سیکھ جاتے ہیں۔
اسی تصویر کا ایک اور رخ مردوں سے ہونے والی معاشرتی نا انصافی بھی ہے۔ پدر شاہی معاشرے نے مردانگی کے جو معیار مردوں کے کندھوں پر لاد دیے ہیں ان سے خواتین تو متاثر ہوتی ہی ہیں مگر مرد بھی اکثر ان کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ سب سے بڑی ناانصافی جذبات کے اظہار پر پابندی ہے۔ خواتین کے ساتھ نا انصافی پر اب کچھ حد تک بولنا قابل قبول سمجھا جا رہا ہے مگر مرداپنی ذہنی صحت پر بات کر کے اسی معاشرے میں شرمندہ ہو جاتا ہے۔
اس کی سب سے عام مثال یہ ہے کہ کسی قریبی کی موت پر بھی مرد کو ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ مرد بنو، مرد روتے نہیں ہیں، تم نے ہی سب کو سنبھالنا ہے۔ اس حوصلے اور تسلی کے پیچھے نیت مثبت بھی ہو تو مرد کو انسان رہنے کی بھی اجازت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ان کھوکھلے معیارات کی وجہ سے انسان صرف غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ اسی طرح پیسہ کمانے والی عورت کو برا سمجھنا یا بیوی کو کام کرنے کی اجازت دینے والے شخص کو شرمندہ کرنا ایک اضافی چیلنج بن جاتا ہے۔
معاشی حالات کے دباؤ کے باوجود مرد اپنی ہی بیوی سے مدد لینے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی مزید ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ جو بیوی کو دبا کر رکھے وہ مرد ہے اور جو اس کا خیال کرے وہ غلام۔ اسی طرح رشتوں کا توازن بھی مرد پر کبھی کبھار ایک مشکل بن کر ٹوٹتا ہے۔ یہ لا تعداد ذمہ داریاں اور حاوی ہونے کے معاشرتی تقاضے مرد کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور اکثر ہمارے اپنے ہی اس سے مکمل طور پر نابلد رہتے ہیں۔
آخر ہم کب تک ایک صنف کو نا انصافی پر سمجھوتہ کرنے اور دوسری صنف کو حاوی ہونے کی ترغیب دیتے رہیں گے؟۔ خواتین کو ہم گھر، دفتر، محفل سے پبلک ٹرانسپورٹ تک، ہونے والی ہر نا انصافی اور زیادتی کو قابلِ قبول سمجھنا سکھاتے رہیں گے۔ اپنے بیٹوں کو جذبات کے اظہار کی ممانعت پر مائل کر کے ہم ان کی زندگی کی بہت سی خوشیاں اور سکون چھین رہے ہیں۔
ہمیں سمجھوتے کی تعریف اور معیار دونوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور مردوں کو جذبات کے مثبت استعمال پر راغب کرنے کی کیونکہ اسی طرح ہم اپنی نئی نسل کو ذہنی طور پر اپنے آپ سے زیادہ صحت مند اور کامیاب دیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔