’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔