’ہندو میرج بل‘ سندھ اسمبلی میں منظور
16 فروری 2016190 ملین آبادی کے ملک پاکستان میں کل آبادی کا صرف 3 فیصد اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ اقلیتیوں میں ایک بڑی تعداد ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔ لیکن پاکستانی ہندوؤں کے پاس قانونی طور پر شادی رجسٹر کرانے کا حق نہیں تھا۔ دوسری جانب مسیحیوں کو 1870 میں بنائے گئے ایک برطانوی قانون کے تحت شادی رجسٹر کروانے کا حق ہے۔ پیر 15 فروری کے روز سندھ اسسمبلی نے ’ ہندو میرج بل‘ کے نام سے ایک قانونی مسودہ منظور کر لیا ہے جس کے تحت اب سندھ میں آباد ہندو آبادی قانونی طور پر اپنی شادیوں کو رجسٹر کروا سکے گی۔ پاکستان کے ہندوؤں کی اکثریت سندھ میں آباد ہے۔
ہندو مذہب کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کے باعث ہندو خواتین زبردستی کی شادی اور کئی مرتبہ ریپ کا شکار ہوتی تھیں خاص طور پر بیوہ خواتین زیادہ متاثر ہوتی تھیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس بل کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک غیر سرکاری تنظیم کی رکن شہناز شہیدی کہتی ہیں، ’’اب ہندو بھی مسلمانوں کی طرح اپنی شادی رجسٹر کروا سکیں گے، ایسا بل قومی سطح پر منظور ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان کی ایک نوجوان ہندو خاتون نے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار، دا ایکسپریس ٹریبیون میں اس قانون کے حوالے سے لکھا ہے، ’’اگر شادی کا قانونی طور پر اندراج ہی نہیں ہوا تو ایک ہندو عورت طلاق کیسے لے سکتی ہے۔ کچھ ہندو مردوں نے اس قانون کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ہندو کمیونٹی میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ایک عورت جو یہ ثابت ہی نہیں کر سکتی کہ وہ شادی شدہ ہے تو وہ طلاق کیسے لے سکتی ہے۔‘‘
اب اس قانون کے تحت ایک ہندو عورت طلاق لے سکتی ہے۔ وہ شوہر کی پینشن حاصل کرنے کی حقدار ہو گی اور اسے شوہر کی جائیداد میں حصہ بھی ملے گا۔ علاوہ ازیں شادی کرنے کے لیے کم سے کم عمر 18 سال ہوگی جو ہندوؤں میں کم عمری کی شادی کی روایت کو بھی ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
اس قانون کے تحت سکھ اور پارسی افراد بھی شادی رجسٹر کروا سکیں گے۔