ہِرش بیگل کی ’ڈیانا‘ جرمن سینماؤں میں
9 جنوری 20141957ء میں جرمن شہر ہیمبرگ میں پیدا ہونے والے اولیور ہِرش بیگل نے اپنے کیریئر کا آغاز ٹیلی وژن پر چھوٹی چھوٹی سیریز سے کیا تھا۔ تب یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ مستقبل میں وہ بین الاقوامی فلمی دنیا کی ایک اہم شخصیت بن کر سامنے آئیں گے۔ گزشتہ سال ستمبر میں جب لندن میں اُن کی فلم ’ڈیانا‘ کا افتتاحی شو منعقد ہوا تو وہ بین الاقوامی فلمی شخصیات کا مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تھے۔ آج کل لندن میں ہِرش بیگل کا ایک گھر بھی ہے۔
اگرچہ ہِرش بیگل نے ہیمبرگ کی فائن آرٹس یونیورسٹی میں فلم کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی تاہم شروع شروع میں اُن کی زیادہ توجہ مصوری اور گرافک آرٹ پر رہی۔ پھر اُنہوں نے ایک ویڈیو میگزین کا کامیاب اجراء کیا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر ٹیلی وژن تک پہنچ گئے۔
برسوں ٹیلی وژن پر مصروف رہنے کے بعد بالآخر 2001ء میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ بڑی اسکرین کے لیے فلم ’دی ایکسپیریمنٹ‘ بنائی۔ اس فلم میں امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ستر کے عشرے کے اُس تجربے کو کامیابی کے ساتھ ایک فیچر فلم کے روپ میں پیش کیا گیا تھا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جیل میں قیدیوں پر کیا گزرتی ہے۔
جب 2004ء میں بین الاقوامی سطح پر کامیاب جرمن فلم ساز بیرنڈ آئیشنگر نے نازی سوشلسٹ آمر اڈولف ہٹلر کے آخری ایام پر ایک فلم بنانے کا آغاز کیا تو اُنہوں نے اس کی ہدایات کی ذمے داری اولیور ہِرش بیگل کو ہی سونپی۔ یہ فلم تھی، ’ڈاؤن فال‘، جس میں ہٹلر کا کردار اداکار برُونو گانس نے بہت ہی عمدگی سے ادا کیا۔ اس فلم کو دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے دیکھا اور اسے ہنگامہ خیز کامیابی حاصل ہوئی۔
اس کامیابی نے ہِرش بیگل کے لیے بین الاقوامی فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے تاہم ہالی وُڈ میں 2007ء میں اُن کی پہلی سائنس فکشن فلم ’اِنویژن‘، جس میں نامور فلم سٹار نکول کِڈ مَین نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، بری طرح سے فلاپ ہو گئی۔ اسے ناظرین نے بھی رَد کر دیا اور ناقدین نے بھی۔ اس فلم کی پروڈکشن کے آخری دنوں میں ہِرش بیگل سے ہدایتکاری کی ذمے داریاں بھی لے لی گئی تھیں۔
2009ء میں شمالی آئر لینڈ کے تنازعے پر بننے والی اُن کی فلم ’فائیو منٹس آف ہیون‘ زیادہ کامیاب رہی، جس نے امریکا میں سن ڈانس فلمی میلے میں انعام بھی حاصل کیا۔
نو جنوری سے جرمن سینما گھروں میں دکھائی جا رہی فلم ’ڈیانا‘ ہِرش بیگل کی چھٹی فلم ہے، جس میں اگست 1997ء میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو جانے والی برطانوی شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری دو برسوں کے واقعات کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان کے ساتھ اُن کی قربتوں کی داستان بھی بیان کی گئی ہے۔
اس فلم کو برطانوی پریس میں بری طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ایک اخبار نے تو یہ تک کہ ڈالا کہ اس فلم کے ذریعے ’ڈیانا‘ دوسری مرتبہ انتقال کر گئی ہے۔ ناقدین کے ساتھ ساتھ برطانوی ناظرین نے بھی اس فلم کو رَد کر دیا۔ نومبر میں یہ فلم امریکا اور کینیڈا میں بھی نمائش کے لیے پیش ہوئی لیکن اس کی وہاں بھی زیادہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ آیا جرمنی اور دیگر ممالک میں اس فلم کو پسند کیا جائے گا یا رَد کر دیا جائے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے تاہم ایک بات طے ہے کہ بین الاقوامی فلمی دنیا میں ہِرش بیگل کا سفر ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا۔