یروشلم کے قریب ڈیڑھ ہزار سال پرانے بازنطینی کلیسا کی دریافت
23 اکتوبر 2019تل ابیب سے بدھ تیئیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی حکام نے بتایا کہ اس قدیم مسیحی عبادت خانے کی باقیات پر ایسے شاندار نقش و نگار بنے ہوئے ہیں، جن میں مختلف اقسام کے درختوں کے پتے، پھل اور طرح طرح کے پرندے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس چرچ کی باقیات پر یونانی زبان میں ایک ایسا حوالہ بھی دیکھا گیا ہے، جس میں 'شان و شوکت والے شہید‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کے تاریخی باقیات کی کھدائی کے شعبے کے سربراہ بینجمن سٹورچن نے کہا، ''ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ شہد کون تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا، ''اس قدیمی چرچ کی جن باقیات کا پتہ چلایا گیا ہے، ان پر بڑی متنوع نقش نگاری کی گئی ہے۔
اس تقریباﹰ 1500 سال پرانے تعمیراتی ڈھانچے کے چند باقی ماندہ ستون ایسے بھی ہیں، جو ممکنہ طور پر کہیں دور سے درآمد کر کے اس چرچ کی تعمیر میں استعمال کیے گئے تھے۔‘‘
اسرائیلی حکام نے بتایا کہ یروشلم شہر سے مغرب کی طرف ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے کھدائی کے دوران تقریباﹰ 1500 مربع میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ایک ایسی جگہ دریافت ہوئی، جس کے عین وسط میں قدیم بازنطینی دور کے ایک کلیسا کی باقیات موجود تھیں۔
اب تک یہ طے ہو چکا ہے کہ اس چرچ کا پہلا حصہ چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بینجمن سٹورچن نے بتایا، ''یہ بھی ممکن ہے کہ اس کلیسا کی عمارت کے اب تک موجود ایک حصے میں جس 'شان و شوکت والے شہید‘ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی جسمانی باقیات بھی شاید اسی چرچ کے نیچے ایک زیر زمین کمرے میں دفن کی گئی ہوں۔‘‘
اس قدیمی کلیسا کی باقیات کی موجودگی کا انکشاف یروشلم کے نواح میں بیت شمیش نامی مقام پر ایک نئے رہائشی علاقے کی تعمیر کے لیے کی جانے والی کھدائی کے دوران ہوا۔ ان تاریخی باقیات کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد وہاں ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے کی جانے والی کھدائی پر تقریباﹰ 1.8 ملین یورو خرچ ہوئے۔
م م / ع ح (ڈی پی اے)