یمن: ایک ہزار سے زائد بچے ہلاک یا زخمی
19 اگست 2015اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران یمن کے تنازعے میں تقریباﹰ چار سو بچے ہلاک جبکہ چھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق مارچ سے یہ تنازعہ پھیلتا جا رہا ہے اور وہاں روزانہ کی بنیادوں پر آٹھ افراد مارے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مارچ سے سعودی عرب اور اس کی اتحادی فورسز نے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
آج جاری ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس لڑائی میں اب تک چار ہزار تین سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ان میں زیادہ تر افراد شہریوں کی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں نہ صرف بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ اشیائے خورد و نوش کی بھی کمی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مارچ کے بعد سے اس ملک کے تیرہ لاکھ باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں جبکہ ملک میں دس لاکھ بچوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کا کہنا تھا، ’’رواں برس مارچ سے پھیلتے ہوئے اس سفاکانہ اور مسلح تنازعے کی سب زیادہ آگ بچوں کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور اس تنازعے کے حل کے لیے کسی قرارداد کی بھی امید نہیں ہے۔‘‘
یونسیف کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس تنازعے کا سب سے خاص المیہ بچے ہیں، یہ بمباری کے ذریعے ہلاک ہو رہے ہیں یا گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ بچ جانے والوں کو بیماریوں اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق اس لڑائی میں استعمال یا بھرتی کیے جانے والے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس 377 بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جبکہ گزشتہ برس ان کی تعداد 156 تھی۔ یونسیف کے مطابق یمن تنازعے کے تمام فریقین بچوں اور نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ نوجوان زیادہ تر ایسا اپنے والدین اور اہلخانہ کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ مارچ سے یمن کے ایک تہائی ہسپتال، جن کی تعداد تقریباﹰ نو سو بنتی ہے، بند پڑے ہیں۔