یمن میں اڑتالیس گھنٹوں کی جنگ بندی
19 نومبر 2016سعودی عسکری اتحاد کے ایک بیان کے مطابق،’’یمن میں دوپہر بارہ بجے سے اس فائربندی پر عمل درآمد کے اس معاہدے میں توسیع بھی ہو سکتی ہے اگر حوثی باغی اور اس کے اتحادی محصور علاقوں میں امدادی ساز وسامان کی ترسیل کی اجازت دیں۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد میں شامل دستے کی جانب سے اس دوران سمندری اور فضائی راستوں کی ناکہ بندی جاری رہے گی جبکہ نگرانی کے لیے جہاز بھی فضا میں پرواز کرتے رہیں گے۔
بتایا گیا ہے کہ اس فائر بندی کی درخواست یمنی صدر منصور ہادی کی جانب سے کی گئی تھی۔ منصور ہادی ریاض میں جلا وطنی کی زندگی گزار چکے ہیں اور اب بندرگاہی شہر عدن میں اپنی حکومت کا ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حوثی باغیوں کی جانب سے اس فائر بندی معاہدے کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ انیس نومبر کو جنگ بندی شروع ہونے سے قبل بھی حوثی باغیوں کی جانب سے کیے گئے مبینہ میزائل حملے میں ایک سعودی فوجی کی ہلاکت ہوئی ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس سلسلے میں فائر بندی کا اعلان کیا تھا، جس پر جمعرات سے عمل درآمد کیا جانا تھا تاہم جمعے کے روز ایک مرتبہ پھر یمن کے مختلف علاقے جنگ کا میدان بن گئے تھے۔
تاہم اس صورتحال میں اس بات کی امید کم ہی ہے کہ فریقین اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں اپنی توپوں کے دہانے بند رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ جان کیری نے ابھی عمان میں حوثی باغیوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ حوثی فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں لیکن ہادی حکومت کے مطابق وہ امن کے لیے کی جانے والی کسی بھی کوشش سے آگاہ نہیں ہے۔
جمعرات سے اب تک یمن میں پچاس سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یمن میں اب تک فائر بندی کی چھ سے زائد ناکام کوششیں ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کی کارروائیوں کے بعد سے اب تک سات ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 37 ہزار سے زائد ہے۔ یمن سے داغے جانے والے راکٹوں کی زد میں آ کر اور سرحد پرجھڑپوں میں سو سعودی فوجی اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔