یمنی شہر مارب ’ ہتھیاروں کی جنت‘
19 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ مارب کی صورتحال کو کچھ اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے، ’’شہر کے مرکز میں دکھائی دینے والے ہر شخص کے کندھے پر ایک بندوق لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور ان میں سے اکثراضافی طور پر ایک پستول بھی لے کر چل رہے ہوتے ہیں اور ان کی جیب میں ایک دستی بم بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ افراد اس علاقے میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے درخت ’’ قات‘‘ کے پتے چبا رہے ہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ پاکستان اور بھارت میں تمباکو والا پان۔
یمن میں کہا جاتا ہے کہ ’ہر شہری کے لیے کم از کم تین بندوقین ہیں‘۔ حالیہ خانہ جنگی نے اسے ایک ایسا ملک بنا دیا ہے کہ جس کے بارے میں اقوام متحدہ کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ’یمن میں انسانی بحران کی صورتحال تشویشناک‘ ہے۔ ان حالات میں مارب شہر میں ہتھیاروں کی ریل پیل پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارب میں ہتھیاروں کی باآسانی دستیابی نے ہی ملک میں خانہ جنگی شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حوثی شیعہ باغیوں اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے حامی دستوں نے ابھی تقریباً ایک ماہ قبل مارب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم یہاں پر موجود مقامی جنگجو گروپوں نے انہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ ان میں سے کئی جنگجو گروپوں کی تربیت اُن خلیجی ممالک میں ہوئی ہے، جو اس وقت سعودی عرب کی سربراہی میں اس ملک پر فضائی حملے کر رہے ہیں۔
کندھے پر بندوق لٹکائے ایک اٹھارہ سالہ لڑکے ابو ارحب نے بتایا کہ جب حوثیوں نے اس کے گاؤں پر قبضہ کیا تھا تو اس کے بعد سب سے پہلے اس نے ہتھیار خریدے، ’’میں نے جہانہ نامی گاؤں میں جا کر ہتھیار خریدے اور پھر مارب آ گیا۔ ہم انشاء اللہ حوثیوں کو شکست دے کر جلد ہی صنعاء میں ہوں گے‘‘۔
مارب میں ایک کلاشنکوف چند سو ڈالر میں خریدی جا سکتی ہے جبکہ ایک دستی بم کی قیمت تیس ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیار بھی دستیاب ہیں، جن میں راکٹ لانچر، بم اور چھوٹی توپیں بھی شامل ہیں۔