180711 Schuldenkrise EU Lösungsvorschläge
20 جولائی 2011مالیاتی منڈیاں جمرات کی اس کانفرنس سے ٹھوس اقدامات کی توقع کر رہی ہیں۔ یورپ کے قرضوں کے بحران کے حل کے لیے اب ایسی تجاویز پر بھی غور کیا جانے لگا ہے، جو اب تک ناقابل تصور خیال کی جا رہی تھیں۔
ایسی ایک تجویز یہ ہے کہ یونان اور دیگر ممالک اپنے ریاستی قرضے مارکیٹ کی قیمت پر واپَس خرید لیں گے۔ یہ اُن کی اصل موجودہ قیمت سے کم ہو گی۔ اس کے لیے پیسہ EFFS نامی امدادی فنڈ کی وساطت سے یورو زون کے دیگر ممالک کی جانب سے فراہم کیا جائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ متاثرہ ممالک سردست قرضوں کے بھاری بوجھ سے آزاد ہو جائیں گے۔ نقصان اِس کا یہ ہو گا کہ ریٹنگ ایجنسیاں اس اقدام کو ایک ایسی حالت سے تعبیر کریں گی کہ متاثرہ ممالک اپنے قرضے واپَس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ مزید برآں نجی شعبے کے مالیاتی اداروں کو اربوں کی رقوم سے دستبردار ہونا ہو گا۔
نجی شعبے کے بینک Hauck und Aufhäuser کے برکہارڈ آلگائر کے خیال میں یونان کو ہی تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’سرمایے کی کمی کی صورت میں یونانی بینک فوری طور پر تباہی سے دوچار ہو جائیں گے کیونکہ اُن کے پاس کوئی سرمایہ رہے گا ہی نہیں۔ وہ سارا استعمال ہو چکا ہو گا۔‘‘ ایسے کسی اقدام کے نتیجے میں حصص کی منڈیوں کو بھی دھچکہ لگے گا۔
ایک اور تجویز یورو بانڈز کی ہے یعنی ایسے ریاستی قرضوں کی، جو یورو زون میں شامل تمام ملکوں کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کیے جائیں گے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ مثلاً جرمنی کو فوری طور پر اندازاً پانچ فیصد سود ادا کرنا ہو گا تاکہ اُس کی بنیاد پر دیگر یورو ممالک کے اوسط کا حساب لگایا جائے۔
وفاقی جرمن بینک کے صدر ژینز وائیڈے مان ان بانڈز کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں اس طرح مقروض ممالک کی بچت کرنے میں دلچسپی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ وہ کہتے ہیں:’’یورپ کے لیے قرضوں کی ایک مشترکہ منڈی ہی ہونی چاہیے، جس میں جرمنی یا کسی بھی دوسرے ملک کی طرح یونان بھی دس برسوں کے لیے پانچ فیصد ہی کے حساب سے سود ادا کرے۔ شرط یہ ہے کہ سیاستدان اسی مناسبت سے اس چیز کو مستحکم بھی بنائیں۔‘‘
ایک تجویز یورو زون کے ممالک کا بیڈ بینک قائم کرنے کی ہے۔ اس کا فائدہ بھی یہ ہے کہ فوری طور پر مقروض ممالک قرضوں کے بھاری بوجھ سے آزاد ہو جائیں گے۔ نقصان یہ ہے کہ اس کے لیے بہت ہی زیادہ پیسہ درکار ہو گا۔ ساتھ ہی یورو امدادی پیکج کے مالیاتی حجم کو بھی بڑھا کر ممکنہ طور پر 1.5 ٹرلین یورو یعنی پندرہ سو ارب یورو تک لے جانا ہو گا۔
اس کے علاوہ یورپی سطح کے ایک وزیر خزانہ کا عہدہ وضع کرنے کی بھی تجویز ہے کہ جو ملک بھی پیسہ وصول کرے، وہ اپنی حاکمیتِ اعلیٰ کے ایک حصے سے بھی دستبردار ہو۔ تاہم آیا ایسی کوئی تجویز جلد منظور کر لی جائے گی، اس کا امکان کم ہی ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے مالیاتی معاملات کی نگرانی کسی اور کے سپرد کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہو گا۔
رپورٹ: ضمیر ابراہیم (فرینکفرٹ) / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق