ڈبلن ضوابط میں اصلاحات میں پیش رفت ہوتی ہوئی
27 جنوری 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تارکین وطن اٹلی اور یونان میں پھنسے ہوئے ہیں، تاہم ان ممالک کا بوجھ بانٹنے کے لیے یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں اختلافات کی وجہ سے ڈیڈلاک برقرار ہے۔ اسی تناظر میں یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے جمعرات کے روز مالٹا کے دارالحکومت ولیٹا میں ہونے والے اجلاس میں کسی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
اس اجلاس میں ڈبلن معاہدے میں اصلاحات کے مسودے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ڈبلن معاہدے کے مطابق یورپی یونین میں داخل ہونے والے کسی بھی تارک وطن کو اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کا حق ہے، جہاں وہ سب سے پہلے پہنچا۔ اس صورت حال میں ان تارکین وطن کو یونان یا اٹلی ہی میں سیاسی پناہ جمع کرانے کا حق حاصل ہے اور انہی ممالک کو اس بابت فیصلہ کرنا ہے، تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی یونین کو درپیش مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کے تناظر میں یونان اور اٹلی کی جانب سے یورپی یونین سے مدد کے مطالبات دھرائے جاتے رہے ہیں۔
یورپی یونین کی موجودہ شمشاہی کی صدارت کے حامل ریاست مالٹا کے وزیرداخلہ کارمیلو ابیلا نے پریس کانفرنس میں کہا، ’’آج ہم نے کچھ پیش رفت کی ہے، جس سے مستقبل میں نئی راہیں کھل پائیں گی۔‘‘
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اوراموپولوس نے اس اجلاس سے قبل اپیل کی تھی کہ 28 رکنی یورپی یونین گزشتہ 18 ماہ سے برقرار ڈیڈلاک کے خاتمے اور ڈبلن ضوابط میں ترمیم کے لیے پیش رفت کرے۔
انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ ہم ایک اجتماعی حل، جس میں یورپی یونین کی یک جہتی کا عنصر غالب ہے، سے زیادہ دور نہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ موجودہ ڈبلن ضوابط کے تحت اگر کوئی تارک وطن کسی یورپی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دیتا ہے، تو اسے اس رکن ریاست میں واپس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں سے وہ یورپی یونین میں داخل ہوا تھا۔
جرمن وزیرداخلہ تھوماس دے میزیئر نے صحافیوں سے بات چیت میں تفصیلات ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈبلن معاہدے میں اصلاحات کے لیے تین مراحل پر بات چیت کی گئی۔ جس میں عمومی حالات اور مہاجرین کے تیز بہاؤ کی صورت میں الگ الگ ضوابط پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔